حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
باب6: رزقِ حلال: گلہ بانی سے تجارت تک سیدنا محمد رسول اللہﷺ کو اللہ نے بچپن سے ہی اپنے سابقہ نبیوں کے راستے پہ رکھا قرآنِ کریم نے سارے نبیوں کو جو مشترکہ احکام دیے ان میں سے ایک رزقِ حلال کا اہتمام بھی ہے قرآن میں ہے: یٰٓاََیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبَاتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا اِنِّی بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌo (المومنون: ۵۱) ترجمہـ:اے پیغمبرو! پاکیزہ (حلال) چیزوں میں سے (جو چاہو) کھائو اور نیک عمل کرو، یقین رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو، مجھے اس کا پورا علم ہے۔‘‘ حضرت داؤد علیہ السلام نے اللہ سے صنعت و حرفت کے فن کا سوال کیا، تو اللہ نے ان کے ہاتھ میں لوہے کو نرم کر دیا تاکہ لوہے کے ذریعے آلاتِ حرب بنا سکیں ۔ اور ان کو جو حکم دیا اسے قرآن کریم میں جگہ دی۔ {اَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ وَّ قَدِّرْ فِی السَّرْدِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌo} (السباء: ۱۱) ’’پوری پوری زرہیں بنائو اور کڑیاں جوڑنے میں توازن سے کام لو اور تم سب نیک عمل کرو، جو عمل بھی تم کرتے ہو میں اسے دیکھ رہا ہوں ۔‘‘ ان دونوں آیتوں میں عمل ِصالح کو رزقِ حلال کے بعد بیان کیا گیا ہے، قرآنِ مجیدکے اس انداز بیان سے پاکیزہ روزی کی اہمیت واضح ہوتی ہے اور خطاب نبیوں کو ہے، جن کا منفرد عمل دعوت ِالی اللہ ہوتا ہے، اس لیے ان کو حکم دے کر سبق دیا جا رہا ہے کہ رزق حلال عبادت و معاملات میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے سب نبیوں نے قوتِ بازو سے رزقِ حلال کے لیے کوشش فرمائی۔نبیوں کے پیشے: ۱۔ حضرت آدم علیہ السلام کاشتکارتھے۔ ۲۔ حضرت نوح علیہ السلام اور زکریا علیہ السلام لکڑی کا کام کرتے تھے۔ ۳۔ حضرت لقمان علیہ السلام درزی۔ ۴۔ حضرت لوط علیہ السلام چمڑہ ساز تھے۔ (تفسیر القرطبی: ۱۱/ ۳۲۱) ۵۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ حضرت مریم علیہا السلام سوت کا تنا جانتی تھی۔ (حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کے ساتھ ہاتھ بٹاتے اور ) سوت کی کمائی سے گھر چلاتے تھے۔ (تفسیر القرطبی: ۸/ ۱۰۸)