حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
ملاحظہ: یہ وہ محرکات تھے، جن لیے آپ کے قلبِ اطہر کو تیار کیا جا رہا تھا، بکریاں امت کا نمونہ پیش کر رہی تھیں ، اور حضورﷺ ایک شفیق و مہربان، بیدار اور سمجھدار گلہ بان کا کردار ادا کر رہے تھے۔ جب امت کی مختلف الخیال اولاد سے آپﷺ کا سابقہ پڑا تو دیکھا گیا کہ آپﷺ نے بیک وقت حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جیسے جانثاروں حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے جری انسانوں ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جیسے نرم دل لوگوں سے معاملات بھی رکھے اور عبداللہ ابن ابی جیسے منافقین، یہود ونصاریٰ (امتِ اجابت) سے واسطہ پڑا اور آپ کامیاب رہے۔حیوانات کے حقوق: محمد عربی علیہ السلام پوری کائنات کے لیے رحمت تھے حتیٰ کہ آپﷺ نے جانوروں کے حقوق کی رعایت کا حکم بھی ارشاد فرمایا: اگر آپﷺ بکریاں نہ پالتے تو ان کی ضروریات کا علم آپﷺ کو کس طرح ہوتا؟ قبل از نبو ت اونٹوں پر طویل اسفار اور بکریوں کی نگہبانی سے آپﷺ کو ان بے زبانوں کی ضروریات کا احساس بھی ہوا، جس کی وجہ سے آپﷺ کی لسان صدق بیان سے حیوانات کے حقوق کے سلسلہ میں جواد ا ہوا وہ اس امت کے انسانوں اور جانوروں کے لیے باعثِ رحمت ہے۔آپﷺ کو کسی صحابی کوبکریوں کاعلم ہوتا تو پالنے،ان کی صفائی ستھرائی اوران کے علاج کی ایسی تدبیریں بتاتے کہ صحابی حیران ہوجاتے۔(سبل الہدیٰ ۷/۴۱۱)سادہ زندگی: بکریوں کی رکھوالی کر نے والے محلات میں نہیں رہتے وہ صحرائی زندگی، لو، دھوپ اور سردی کی یخ بستہ ہواؤں کے عادی ہوتے ہیں ، اسی طرح حضرت محمدﷺ نے مشقت کے اوقات میں صبر وشکر ہمت اور حوصلے کے ساتھ جینے کا سبق دیا۔ اور نہ ہی یہ کام کرنے والے پر تکلف کھانوں ، گرم اور ٹھنڈے کی فرمائشوں کے چکر میں پڑتے ہیں ، آپﷺ نے ایام شباب کے یہ دن جس سادگی، خلوت اور قناعت میں گزارے وہ امت کے لیے آج بھیباعثِ تقلید ہیں اور خود حضرت محمدﷺ نے اپنی زندگی دنیا سے بے رغبتی اور جس انداز سے تسلیم ورضا کے پیکر بن کر گزاری۔اس کی ابتداء گلہ بانی کے ان ایام سے ہی ہوئی ہے۔تواضع وانکساری : سیدنا محمدﷺ علم النفس کے سب سے بڑے عالم تھے، آپ کو انسانوں ، جانوروں اور جنات کی خاصیات کا علم تھا۔ آپﷺ نے بکریاں پالنے والوں کے متعلق جو فرمایا، اس سے اندازہ ہوتاہے کہ آپﷺ انکے اس کسبِ معاش کے طبعی اثرات سے بخوبی واقف تھے۔