حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
ہر طرف دیکھتا ہے کہ کوئی بھیڑیا یا درندہ تو ان کی فکر میں نہیں ؟ چاہتا ہے کہ سب بھیڑیں اور بکریاں مجتمع رہیں مبادا ایسا نہ ہو کہ کوئی بکری گلہ سے علیحدہ رہ جائے اور بھیڑیا اس کو پکڑ لے جائے، صبح سے شام تک راعی اسی فکر میں ان کے پیچھے پیچھے سرگرداں اور پریشان رہتا ہے، یہی حال حضرات انبیاء علیہم السلام کا امت کے ساتھ ہوتا ہے کہ وہ امت کی اصلاح وفلاح کی فکر میں لیل ونہار سرگرداں رہتے ہیں ۔ امت کے افراد تو بھیڑوں اور بکریوں کی طرح ادھر ادھر بھاگتے پھرتے ہیں اور وہ کمالِ شفقت ورافت سے ان کو للکار کر اپنی طرف بلاتے رہتے ہیں اور امت کی اس بے توجہی سے ان حضرات کو تکلیف اور مشقت پہنچتی ہے، اس پر صبر اور تحمل فرماتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ دعوت و تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں ۔شفقت ورحمت اور جس طرح بھیڑیں ، بھیڑیوں اور درندوں کے خوانخوار حملوں سے بھی بے خبر ہوتی ہیں ۔ اسی طرح امت نفس اور شیطان کے مہلکانہ حملوں سے بے خبر ہوتی ہے اور حضرات انبیاء ہر وقت فکرمند میں رہتے ہیں کہ کہیں نفس اور شیطان ان کو اچک نہ لے جائیں ، جس درجہ نبی کو امت کی صلاح اور فلاح کی فکر ہوتی۔ امت کو اس کا عشر عشیر بھی فکر نہیں ہوتا امت کو تو اپنی ہلاکت اور بربادی کا خیال بھی نہیں ہوتا اور حضرات انبیاء علیہم السلام ان کی اس زبوں حالی کو دیکھ کر اندر ہی اندر گھلتے رہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے نبی رحمتﷺ کی دلی کیفیت کا تذکرہ یوں فرمایا ہے۔ لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَo (الشعراء: ۳) ترجمہ:شاید آپ ان کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے اپنی جان دے دیں ۔ اور اسی وجہ سے ارشاد ہے:{اَلنَّبِی اَوْلٰی بِالمُؤمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِہِمْ} (الشعراء: ۶) ترجمہ:نبی مومنین کے حق میں ان کی جان سے زیادہ قریب ہے۔ اور ایک قراء ت میں ہے وَہُوَابٌ لَّہُمْ، یعنی وہ نبی ان کا روحانی باپ ہوتا ہے۔ حضورﷺ نے بکریوں کی نگہبانی کرکے اپنی بننے والی اُمت میں اسی دردو غم کے نشانات چھوڑے جو ایک نبی کو اپنی اُمت کے لیے ہوسکتے ہیں اس لیے آج کا ہر مسلمان ان کو اپنا محسن سمجھتا ہوا کہتا ہیـ: اے میرے اللہ! تو اپنی بے شمار رحمتیں اور غیر محدود برکتیں حضرات انبیاء پر عموماً اور خاتم الانبیاء محمدﷺ پر خصوصاً نازل فرما ! یہ وہ ہستیاں ہیں جن کے کلمات قدسیہ نے ہم نابکاروں کو تیرا صحیح راستہ بتلایا۔ (آمین یا ربّ العالمین)