حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
(۷) سب سے زیادہ سچ بولنے والے : وَاَصْدَقُھُمْ حِدِیْثًا (سب سے زیادہ سچے) رسول رحمت ﷺ میں یہ خوبی نہ ہوتی تو آپ ﷺ جامع الصفات نہ قرار پاتے، اس لیے کہ لاتعداد انسانی خوبیوں کا گزر صداقت کے بازار سے ہوتا ہے، قبل از نبوت سچائی کا یہ کمال مشرکین سے اس لیے منوایا جارہا تھا کہ یہ حکمِ الٰہی اترنے والا تھا۔ کُونُو امَعَ الصَّادِقِیْنَ (التوبۃ: ۱۱۹) ترجمہ:سچوں کے ساتھ رہو! جب یہ آیت اتری اس وقت سے پہلے ہی بچے بچے کی زبان سے آپ ﷺکو الصَّادِقُکہلوایا گیا۔ تمام انبیاء علیہم السلام حسین، خوبصورت و وجیہہ ہوتے ہیں ۔ اور سب کی آواز میں کشش ہوتی ہے۔ آواز کا سب سے بڑا حسن سچ ہے،نبی رحمت ﷺ ہمیشہ سچ بولتے تھے حتیٰ کہ آپﷺ کا لقب الصَّادِقُ لوگوں کی زبانوں پہ جاری ہوگیا۔ منصف مزاج یہود بھی کہتے تھے: یہ چہرہ جھوٹا نہیں ہے(الزرقانی: ۸/۴۰۶) اوردعوتِ عام کے پہلے دن آپﷺ نے قوم کے سامنے اپناکردار بطور حوالہ پیش کیاتوسب اہلِ مکہ نے کہا: ہم نے کبھی آپﷺ سے سچ کے خلاف نہیں سنا۔(الوفا:۱/۱۴۰) (۸)بے فائدہ باتوں سے دور رہنے والے اَبْعَدُھُمْ مِّنَ الفُحْشِ (بری باتیں کرنے سے بہت دور) فحش گوئی سے مراد وہ کلام ہے ،جس سے کسی کی ذاتی دل آزاری مقصود ہو ایک حدیث میں ہے ۔ وَلَا فَاحِشًا ومُتَفَحِّشًا (زادُ المعاد : ۱/۷۵) ’’نہ آپ کی طبیعت کسی بدگوئی کی طرف مائل ہوتی اور نہ ہی آپ ﷺ ارادتاً ایسی بات کرتے تھے‘‘ بازار میں کبھی کسی نے آپ ﷺ کی آواز کو نہیں سنا کہ آپ ﷺ اونچا بول رہے ہوں (شمائل ترمذی:۳۳۳) اللہ نے توراۃ میں آپ ﷺ کی آمد سے پہلے فرمادیا: میرے نبی محمد ﷺ نہ شور مچائیں گے، نہ بازاروں میں آوازیں بلند کریں گے اور نہ سخت مزاج ہوں گے۔(زاد المعاد:۱/۹۱) اللہ نے آپ ﷺ کا یہ مزاج بنا کر انسانیت کے سامنے اس قرآنی آیت کامصداق لوگوں کودکھایا:وَیَنْھٰی عَنِ الفَحْشَاء (النحل: ۹۰) ترجمہ:اور وہ بے حیائی کی باتوں سے روکتا ہے۔حضورﷺ نے اس حکم ربانی کا عملی نمونہ قبل از نبوت پیش فرمادیا تاکہ جب نزولِ وحی کا سلسلہ شروع ہو تو سنتِ محمد ﷺ کی صورت میں عملی نمونہ موجود ہو۔