حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
مکہ اور مدینہ اور ان کے قرب وجوار کے سب لوگ دینِ ابراہیمی علیہ السلام کے دعویدار تھے، اس لیے نبی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا یہ حکم بھی ہوا ۔ قُلْ انَّنِیْ ھَدَانِی ْ رَبّیْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقیم، دِیْنًا قِیَمًا مِلّۃَ اِبْرَاھیْمَ حِنِیفًا وَّمَاکَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ۔(الانعام: ۱۶۱) ترجمہ:آپ کہہ دیجئے کہ اللہ نے مجھ کو ایک سیدھا راستہ بتایا ہے ،وہ ایک صحیح دین ہے، جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ ہے جن میں ذرا برابر کجی نہ تھی اور نہ وہ کبھی مشرکین میں سے ہوئے۔ یہ آیات اعلانِ نبوت کے بعد اتریں جن میں مِلّتِ ابراہیمؑ کی اتباع کا حکم دیا گیا، آپﷺ نے جس قوم میں یہ حکم عام کرنا تھا، وہ بھی ابراہیمی کہلاتے تھے اس لیے اللہ نے نزول قرآن سے پہلے آپﷺکو اسی دین کی توفیق دی۔ اسے یوں سمجھا جائے کہ زمانہ جاہلیت میں جبکہ شرک اور کفر کی ظلمتیں ہر طرف چھائی ہوئی تھیں ، اس وقت زید بن عمرو بن نفیل اور ورقہ رضی اللہ عنہ بن نوفل جیسے حضرات مُوحّدین اور حُنَفَاء تھے، تو نبی اکرم ﷺ مُوَّ حّدِ اعظم وحَنِیْف اکبرتھے، آپﷺ نے فرمایا: مجھے اس انداز سے جو ان کیا گیا کہ بتوں اور شاعری سے نفرت میرے دل میں ڈالی گئی۔ (اَلسِّیْرۃ الحلْبِیۃ:۱/۱۸۲)، الخصائص الکبریٰ: ۱/ ۱۵۰ یعنی قلب ِمحمّد ﷺ کو شرک و کفر کی قباحتوں سے بچایا گیا اور لسانِ محمّدﷺ کو شعر کی لذّت سے اس لیے نا آشنارکھا گیا کہ شعراء اپنے کلام میں احتیاط کا دامن چھوڑ دیتے ہیں اس لیے آپﷺ کو اس طرز تکلم سے محفوظ رکھا گیا۔نیکی پر یقین اور برائی سے دوری نزولِ وحی سے پہلے نبیوں کو یقین کی دولت سے نوازا جاتا ہے، انہیں جو پاک زندگی دی جاتی ہے اس کی حقانیت پہ ان کو یقین ہوتا ہے، سارے نبی ہر انسان کی طرح ِ فطرت اسلام پہ پیدا ہوتے ہیں فرق یہ ہوتا ہے کہ تمام انسان ماحول سے متاثر ہو کر خلافِ اسلام راستہ بھی اختیار کرلیتے ہیں لیکن انبیاء علیہم السلام کی حفاظت اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں ۔ جس شہر میں آپﷺ نے آنکھیں کھولیں یہاں حضرت اسمٰعیل علیہ السلام اور دیگرنبی آتے رہے اور توحید کا سبق سکھاتے رہے، لیکن آپﷺ کی ولادت کے وقت یہاں شرک شروع ہوچکا تھا سیّدنا محمد کریم ﷺ ابتداء ہی سے شرک اور بُت پرستی سے اور تمام مراسم شرک سے بالکل پاک اور مُنّزہ رہے۔ ابن کثیر ؒ لکھتے ہیں :رسول اللہ ﷺ اس حال میں جوان ہوئے کہ اللہ تعالیٰ آپﷺ کی حفاظت اور نگرانی فرماتے تھے اور جاہلیت کی تمام گندگیوں سے آپ کو پاک اور محفوظ رکھتے تھے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ یہ ہوچکا تھا کہ ان کو نبُوّت و رسالت اور ہر قسم کی عزّت و کرامت سے سرفراز فرمائے ،یہاں تک کہ آپﷺ مردِ کامل ہوگئے اور مُروّت اور حسنِ