حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
اذانِ سحر سے طُلوعِ شمس تک ٭ صدیوں سے چھائے گھٹا ٹوپ اندھیروں کو موت اسی دن آچکی تھی جب صبح صادق کے وقت سیدنا محمدکریمﷺ دنیا میں تشریف لائے اور زبان اقدس سے اذان کا سب سے پہلا کلمہ اَللّٰہُ اَکْبَر ادا ہوا،تکبیر کی یہ آواز جہاں روشنی کے آنے کی خبر تھی اس کے ساتھ ظلمت کی انتہاء کی نوید بھی تھی۔ ٭ پھر ایک خاموش تبلیغ شروع ہوئی، بچپن سے بلوغت تک ،شرک سے نفرت اور توحید سے محبت کی معصومانہ ادائوں سے صدا آنے لگی اَشْھَداَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ۔ ٭ ظہورِ معجزات کے ابتدائی پچیس سال میں زبانِ حال سے کتنی بار کہاگیا ۔اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ کہ یہ جوانِ رعنا جن کے جسد اطہر سے خوشبو آتی ہے اور جن کے کندھوں کے درمیان نبوت کی مہر ہے، ان کو واقفانِ تورات و انجیل جان چکے کہ یہی ہیں جو اللہ کے رسول ﷺ ہیں ۔ ٭ ان کے اخلاق کریمانہ ، اثر انگیزکلام اور بارعب شخصیت کی پروقار ادائیں یہ سبق دیتی رہیں : حَیَّ عَلَی الصَّلوٰۃ۔ آجائو نماز کی طرف ، ان کا طواف دیکھو ۔مناجاتیں سنو، حمدیہ دعائیں سنو، ان کا قیام ، رکوع و سجود اور قعود ہی تو نماز ہے۔ ٭ اور آخری دنوں میں کچھ زیادہ ہی صدائیں ابھریں کہ حَیَّ عَلَی الْفَلاَح : آجائو کامیابی کی طرف ، کامرانی کے روشن مینار حضرت محمدﷺ ہیں ۔ ٭ آخری دس سال میں اہل مکہ نے دیکھا کہ ان کے ساتھ ایسے لوگ شامل ہوگئے ہیں ، جو اللہ اکبر کا نعرئہ مستانہ بلند کرتے ہیں اور بتوں سے دور ،شراب سے نفرت ،حرام وحلال میں تمیز کرتے ہیں اور زبانِ حال کے ساتھ زبان قال سے بھی تکبیرِ مسلسل (اَللّٰہُ اَکْبَر) کی آواز میں آواز ملاتے ہیں ۔ ٭ اب اذان مکمل ہوا چاہتی تھی لوگوں نے دیکھا صفا پہ کھڑامؤذن کہہ رہا ہے۔ لوگو!لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہہ لو کامیاب ہوجائو گے۔ لو جی !چالیس سال سے یہ مؤذن اذان دے رہا ہے، اب وہ مکمل ہوچکی ، اب نمازِ فجر ہوا چاہتی ہے، پھر سورج طلوع ہوگا اور وہ سویر شروع ہوگی،جس کی شام نہیں ،وہ نور ہوگا جسے کوئی ظلمت مات نہ دے سکے، خوش قسمت ہیں وہ ابن آدم جو اب مزید کسی اعلان کا انتظار نہیں کریں گے، بلکہ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کوپانے کے لیے مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللّٰہِ کے محب صادِق اور متبعِ کامل بن جائیں گے تو صدا آئے گی ۔