حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
آنحضرتﷺ کا فیصلہ: اب دوسری حکمت ظاہر ہونے والی تھی تاکہ لوگ آپ کے ذی شعور اور سب سے بڑے عقل مند ہونے کو بھی تسلیم کر لیں ، جب نبی اکرمﷺ مجوزہ دروازے سے ان کے پاس پہنچے تو انہوں نے آپ ﷺکو تمام واقعہ بتایا کہ سب لوگ آپ کو فَیْصَلْ تسلیم کر چکے ہیں ، محمدﷺ نے ان لوگوں سے فرمایا کہ مجھے ایک چادر لا کر دو! چنانچہ فوراً ایک چادر لائی گئی۔ اسے زمین پر بچھایا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ایک سفید شامی کپڑا تھا۔ آنحضرتﷺ نے حجر اسود کو اٹھا کر اپنے دست مبارک سے اس میں رکھا اور اس کے بعد قریش سے فرمایا: ہر قبیلے کے لوگ اس کپڑے کا ایک ایک کنارہ پکڑ لیں اور پھر سب مل کر اس کو اٹھائیں ۔ چنانچہ سب نے ایسا ہی کیا بنی عبد مناف کا جو حصہ تھا اس کو عتبہ بن ربیعہ نے اٹھایا، دوسرے حصے کو زمعہ نے پکڑا۔ تیسرے کو ابو حذیفہ ابن مغیرہ نے اٹھایا اور چوتھے حصے کو قیس ابن عدی نے پکڑا اور سب نے مل کر چادر کو حجراسود سمیت اٹھایااور بیت اللہ کے قریب تک لے آئے یہاں تک کہ جب انہوں نے حجر اسود کو اس جگہ تک اٹھا دیا جہاں اس کو رکھنا تھا تو رسول اللہﷺ نے آگے بڑھ کر حجر اسود کو اس کی جگہ پر رکھ دیا۔ (سیرۃ ابن ہشام ۱/۱۹۷) اس فیصلہ پر ہر شخص آپﷺ کی تعریف،کررہا تھا اور آپﷺکی عقل مندی اور قوت فیصلہ کی شان میں رطب اللسان تھا، اس واقعہ کا شہرہ کعبۃ اللہ کی تاریخ کا حصہ بن گیا، پورے جزیرۂ عرب میں اس حاضر دماغی و معاملہ فہمی کے حوالے سے نبی کریم علیہ السلام کا نام زبانوں پر آنے لگا، یہ ایسا کارنامہ تھا جس کے تذکرے کے ساتھ آپﷺ کی دیگر صفات کا ذکر بھی عام ہونے لگا اور جس شخص (ابوامیہ )نے یہ تجویز پیش کی (کہ اس دروازے سے جو داخل ہو، وہی فیصلہ کرے گا اور منظور کیا جائے گا) اس کا جب انتقال ہوا تو جزیرۃ العرب کے لوگوں نے اس کی شان میں بھی مرثیے لکھے، ان میں ایک کے اندر یہ شعر ہیں : اَلَا ہَلَکَ الْمَاجِدُ الرَّافِدُ وَ کُلُّ قُرَیْشٍ لَّہٗ حَامِدٌ ترجمہ:خبردار ہو ہلاک ہو گیا وہ شخص جو بزرگ اور خوش حال تھا یہاں تک کہ ہر قریش اس کی تعریف کرتا ہے۔ وَ مَنْ ہُوَ عِصْمَۃُ اَیْتَامِنَا وَ غَیْثُ اِذَا فَقَدَ الرَّاعِدُ ’’اور وہ شخص جو ہمارے یتیموں اور بے سہارا لوگوں کی پناہ گاہ تھا اور تنگ حالی میں لوگوں کے لیے سہارا تھا۔‘‘ (السیرۃ الحلبیۃ: ۱/۲۱۱)