حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
اسلام کی روشنی پھیلنے سے پہلے آپﷺ نے لوگوں کو انصاف دے کر امن کا راستہ ہموار کیا، اس سے لاقانونیت، ظلم اور حق تلفی کا خاتمہ ہونے میں مدد ملی جس معاشرے میں سستا انصاف مہیا ہو اور نبض شناس قاضی میسر ہوں وہاں کے لوگوں کی سوچ کے انداز ہی بدل جاتے ہیں ۔ جرائم کی شرح میں کمی آتی ہے اور آزاد و پرسکون اور محفوظ معاشرہ قائم ہوتا ہے۔ رسول رحمتﷺ کے خاندانی بزرگ بھی لوگوں کے معاملات میں فیصل ہوتے تھے، آپﷺ کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپﷺ کے چچا زبیر بن عبدالمطلب اور ابو طالب بن عبدالمطلب کی موجودگی میں لوگوں کی نظریں آپﷺ کی طرف اٹھتی تھیں کہ ان کے فیصلے آپﷺ فرمائیں ۔ اس فن میں آپﷺ کے اعتماد کا عالم یہ تھا کہ آپﷺ نے فرمایا: اگر میں لوگوں کو انصاف و عدل مہیا نہ کرسکوں تو کون کرے گا؟ (الشفا: ۱/۱۰۶۔ عیون الاثر: ۲/۳۰۴) حضور سید الکائنات علیہ الصلوات و التسلیمات نزولِ قرآن سے پہلے چلتا پھرتا قرآن تھے، جب اسلام کی آمد ہوئی، وحی کا نزول شروع ہوا، توآیت اتری: {وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ} (النساء: ۵۸) ترجمہ:اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو۔ نزولِ وحی سے پہلے اللہ نے آپﷺ کے درست اور انصاف پر مبنی فیصلوں کو زبان زد خلائق کر دیا تھا۔ایک کامیاب قاضی جب فیصلہ لکھتا ہے تو اس کا قلم انسانی احساسات اور قلبی جذبات سے بے نیاز نہیں رہتا وہ اپنا مافی الضمیر سنانے سے پہلے اک ماں ، باپ ، بیٹا ،شوہر اور بیوی کے دلوں کی آواز بھی سنتا ہے اور عدالت میں زیر سماعت بیانات پر بھی غور کرتاہے اگر وہ اپنے اس فن میں کامیاب ہوتاہے توفریقین کو فیصلہ تسلیم کرنے میں کوئی تامل نہیں ہوتا، حضرت محمدکریمﷺ کی عدالت میں ایک مقدمہ آیا ، جس میں فریادی نے آپﷺ ہی کو فریق اور آپﷺ کو منصف قرار دے کر انصاف کی درخواست کی تھی۔ استغاثہ دائر کرنے والے حضرت زید رضی اللہ عنہ کے والد گرامی حارثہ تھے۔ وہ اپنے گم شدہ بیٹے کی اطلاع ملنے پر حضور ﷺکے دربارمیں حاضر ہوئے تھے ، ان کے ساتھ زید رضی اللہ عنہ کا بھائی اورچچا بھی تھے۔ حارثہ نے رقم کے بدلے اپنے بیٹے زید رضی اللہ عنہ کی حوالگی کا مطالبہ کیاتھا اور فیصلے کا حق بھی سید القوم محمدﷺ کو ہی دے دیا تھا۔حضورﷺ نے معاملے کاجائزہ لیا اور بچے کی خوشی کو معاملے کا حل قرار دیتے ہوئے فرمایا: خود زید رضی اللہ عنہ سے پوچھو وہ کیا پسند کرتاہے؟