حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
-6بغلوں کے بال صاف رکھنا: اللہ نے سیدّنا محمد کریم ﷺ کو عقلِ سلیم کی دولت امتیاز سے نوازا تھا، عقل کا تقاضہ بھی ہے اور فطرتِ انسانی اور عادات انبیا ء علیہم السلام میں سے بھی ہے کہ بغلوں کے غیرضروری بال کسی طریقے سے صاف کیے جائیں اس لیے قبل ازوحی بھی آپﷺ اس کا بہت اہتمام فرماتے تھے۔ -7زیرِ ناف کی صفائی :انسانی صفائی کا وہ کونسا پہلو ہے ، جس کی پابندی ہمارے حضورﷺنہ کرتے ہوں چنانچہ عام طور پر ہفتہ میں ایک بار ان بالوں کو صاف کرتے یا حسب ضرورت، لیکن چالیس دن سے زیادہ دیرکرنے کوانتہائی ناپسندیدہ قرار دیا۔ -8استنجاء کرنا ۔یعنی پانی کے ذریعے جسمانی ناپاکی دور کرنے کا اہتمام چالیس سال عمرسے پہلے بھی فرماتے تھے۔ ( امتاع الاسماع: ۲/ ۳۴۷) -9کلی کرنا:۔ وضو میں مسنون اور غسل میں فرض ہے۔ منہ کی صفائی ہے تو صحت ہے، قوت ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ فطرتِ انسانی اور نبیوں کی سنت ہے۔ ان نو کاموں کا اہتمام ہمیشہ کرتے رہے، جب وحی آنا شروع ہوئی تو آپﷺ نے صحابہ کرام کوان کی تعلیم دی:( تفسیر الشعراوی ۶/ ۳۶۶۳)امورِفطرت :سیدنا آدم علیہ السلام سے حضرت محمدﷺ تک ۱۔ سیدنا آدم علیہ السلام سے حضرت نبی علیہ السلام تک ہر انسان کے لیے یہ مذکورہ دس کام ضروری قرار دیے گئے، نبی علیہ السلام ایک عقل مند با شعور انسان ہونے کے ناطے صفائی و نظافت کے ان تمام کاموں کو سرانجام دیا کرتے تھے۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر۲۶۱) ۲۔ یہ امورِ فطرت ہیں ، ایک انسان خواہ وہ کسی بھی رنگ و نسل اور کسی بھی مذہب سے وابستہ ہو یہ اس کی انسانی ضروریات ہیں ، جو اسے حیوانوں سے ممتاز کرتی ہیں ۔ (قرّۃ العینین:۱/۲۱) ۳۔ حضرت محمد علیہ السلام فرماتے ہیں کہ سیّدنا ابراہیم علیٰ نبینَّا وعلیہ الصَّلوۃ والسَّلام کا امتحان ان ہی دس کاموں کے حکم کے ساتھ لیا گیا تھا۔انہوں نے زندگی بھر ان کاموں کو اللہ کی مرضی کے مطابق انجام دیا تو اللہ نے ان کو ’’اِمَامُ النَّاسِ ‘‘ کا درجہ دے دیا۔ (تفسیر ابن کثیر: ۱/۲۸۴) جیسا کہ واضح کیا جاچکا ہے قبل ازوحی مِلّتِ ابراہیمی کی اتّباع کو نبی علیہ السلام اپنا سرمایۂ حیات بنائے ہوئے تھے اس ضابطہ کی روشنی میں یہ یقین کیا جاسکتا ہے کہ آپﷺ یہ دس کام ہمیشہ سے انجام دیتے رہے۔ سن شعور تک پہنچنے سے پہلے ایک غیبی نظام کے تحت آپﷺ کو حُسْن و خوبصورتی اور زینتِ انسانی کے ضامن ان دس امور سے خصوصی انس تھا،