حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
اس لیے جو ’’امن کامل‘‘سیدنا محمد عربی علیہ السلام نے قائم کرنا تھا، اس کی شروعات جناب عبدالمطلب سے کر دی گئیں ، آپﷺ کے محترم داد جناب خواجہ عبدالمطلب کا ایک وعظ یہ ہے: ’’اے لوگو! ظلم و سرکشی نہ کیا کرو! ظالم آدمی دنیا سے اس وقت تک نہیں جا سکتا، جب تک وہ ظلم و زیادتی کا بدلہ اسی دنیا میں نہ چکھ لے۔‘‘ حاضرین میں سے کسی نے کہا: شام والوں میں ایک شخص کے متعلق ہم نے سنا ہے کہ وہ ظلم وسرکشی سے باز نہ آتا تھا اور اسے اس دنیا میں کوئی سزا نہ مل سکی، اسی طرح ظلم کرتا ہوا دنیا سے رخصت ہو گیا۔ عبدالمطلب بولے: لوگو! اس دنیا کے علاوہ بھی ایک اور جہان ہے، وہاں ہر نیکی کا اچھا بدلہ اور برائی کا برا بدلہ ملے گا۔ ظالم آخرت کی سزا سے نہیں بچ سکے گا۔‘‘(السیرۃ الحلبیۃ: ۱/۹) سیدنا محمدکریم ﷺ نے چند سالوں کے بعد جس عالمی امن اور مظلوموں کی داد رسی کا پیغام اولادِ آدم میں عام کرنا تھا ، اس کی ساسیس عالم شباب میں فرمائی، شادی کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اس سلسلے میں آپﷺ کا مکمل ساتھ دیا اور آپﷺکا گھر ضعفاء کا سہارا بنا، اسلام میں آپﷺ کے اس سلسلہ کا پہلا مرکز ’’دارِ ارقم‘‘ قائم ہوا۔ (اسدالغابہ ذکر وفاۃ خدیجہ رضی اللہ عنہا)اجتماعی امور: کارکن اور فرد کا کردار یہ ان دنوں کی بات ہے جب آپﷺ بطور نبی و مرسل متعارف نہیں تھے، اس وقت حلف الفضول نامی انجمن کا رکن بننے، ظلم کا راستہ روکنے اور عوام الناس کے دلوں کو کسی قومی عہدے اور مال کے بغیر اپنی طرف مائل کرنے کے واقعات جہاں آپ کی عقل خدادا کا پتا دیتے ہیں وہاں ایک ایسے امتی کی راہنمائی بھی کرتے ہیں ، جسے مخالف گرد و پیش سے واسطہ پڑے اور وہ اسی ماحول میں اللہ کا بندہ بن کر جینا چاہتا ہو، ان ایام میں آپﷺ کی پاکیزہ ومؤمنانہ زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اگر ہم مستقبل میں خدمت خلق اور دعوت دین کا کام کرنا چاہتے ہیں یا کسی بھی قسم کے تحریکی کام کا ارادہ رکھتے ہیں تو ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے نبی کے دورِ شباب اور ان دنوں کے واقعات کا مطالعہ کریں جو نزول وحی سے پہلے آپﷺ نے اس سرزمین پر گزارے، جہاں سے آپﷺ نے عالمی تحریک کا آغاز کیا۔یہ ایک اجتماعی و رفاہی کام تھا، جس کے لیے آپﷺ نے جو تیاری کی، اس سے ایک کارکن کو یہ اسباق مل سکتے ہیں