حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
اچھائی پھیلانے اور جرائم مٹانے کا جذبہ : خود غرض آدمی کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دوسرے انسان اچھے کام کرتے ہیں یا برے؟ وہ جرائم پیشہ ہیں ، یا جرائم کو روکنے والے لوگ؟ صفات ِانسانی سے محروم ہوتے جا رہے ہیں یا ان میں خوبیاں پیدا ہو رہی ہیں ؟ اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں اور ان کے ماننے والوں کو یہ دولت دیتے ہیں کہ وہ خود بھی اچھے کام کریں اور دوسروں کو اچھی عادات کا خوگر بنائیں ، ہمارے رسولِ رحمت ﷺ ہر برائی سے دلی نفرت رکھتے تھے، اسی لیے اس دور جاہلیت میں بھی آپﷺ نے اس انجمن کی رُکنیت قبول فرمائی جس کا مقصد اولین یہ تھا کہ ملک میں لوگ کمزوروں کے کام آئیں اور معاشرے سے ظلم کا صفایا کیا جائے اور مظلوم کی مدد کی جائے، اسے نبیوں کی اصطلاح میں امر بالمعروف کہتے ہیں ۔اس عمل کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ طاقت اور قانون کے ذریعے برائی کو روکا جائے، آپ ﷺ اس تنظیم کے معزز رکن تھے جو ظلم روکتی تھی، اللہ نے اس طریقے کی محبت آپﷺ کے قلب ِ اطہر پہ جوانی میں ہی ڈال دی تھی (الروض الانف :۲/۴۶)اور ابتدائی درجہ و عظ و نصیحت سے کام لینا ہے۔ حضرت زید بن حارثہ جو آپ کی تربیت میں تھے، اکثر و بیشتر آپﷺ کے ساتھ رہتے تھے، ا ن کو آپ ﷺ نے سختی سے منع فرمایا کہ وہ اساف اور نائلہ نامی بتوں کے قریب تک نہ جائیں ۔ (المستدرک: ۴۹۵۶)باب ۷ میں آپﷺ کے ان دوستوں کاذکرہے جن کوآپﷺنے اپنے اخلاق عالیہ کے ذریعے اچھی تعلیم دی۔ معاشرے سے برائی اور جرائم کو ختم کرنے کا سب سے آخری درجہ یہ ہے کہ انسان خود ان برائیوں سے دور رہے اور خاموش اعلان کرے:یہ عادت انسانی اقدار کے خلاف ہے اس لیے پوری قوم کے لوگ یا اکثریت بھی ایسا کرے تو بھی میں یہ نہیں کروں گا۔ سیدنا محمّد کریمﷺ نے نیکی کے اس درجہ کو بھی اختیار فرمایا، آپﷺ کبھی غارِ حراء میں عبادت کے لیے تشریف لے جاتے اور جب تک مکّہ میں رہتے ، تجارت کرتے یا دیگر مثبت سرگرمیوں میں مصروف ہوتے تو لوگ دیکھتے کہ محمّد جھوٹ سے بچتے اور سچ بولتے ہیں ، اللہ کی بندگی کرتے اور بتوں سے دور رہتے ہیں ، شراب نہیں پیتے اللہ کی حلال کردہ روزی استعمال کرتے ہیں ۔ ظالم سے دور رہتے اور مظلوم سے پیار کرتے ہیں ، صرف اپنے کھانے، پینے اور پہننے کا خیال نہیں رکھتے دوسروں کو اپنی حلال کمائی میں سے کھلاتے، پلاتے اور پہناتے ہیں ۔ (سیرۃ ابن کثیر:۱/۲۴۹)مُجسّمہ ء خیرات جن ایام میں آپﷺ جناب ابو طالب کے گھر میں تھے اور اس گھر کو خیروبرکت کا مرکز بنایا ہوا تھا، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے سب بہن بھائی حضور ﷺ کے ساتھ دستر خوان پہ کھانا کھاتے تو برکاتِ محمّدی ﷺ کو کھلی آنکھوں دیکھتے تھے، ان دنوں میں ایک عید آگئی، لوگ ایک خاص بت کی بندگی کے لیے جانے لگے، حضرت محمد ﷺ نے ان کے