حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
تمہارے مطلوب مکہ میں ہیں : حضرت ورقہ اور زید بن عمرو دونوں اونٹوں پہ سوار ہوکر تلاش حق میں بیت المقدس بھی گئے اور موصل شہر میں پہنچے، وہاں ایک بڑے عالم سے ملے اور انہیں بتایا کہ بیت اللہ کے قرب وجوار میں جولوگ رہتے ہیں ہم ان کے عقائد و اعمال سے مطمئن نہیں ہیں ، ہم شرک سے بھاگے یہاں تک پہنچے، جو مذہب آپﷺ کے ہاں ں پیش کیا جا رہا ہے، وہ بھی شرک و بت پرستی پہ مبنی ہے یہ رسوم تو مکہ میں بھی جاری ہیں ، آپ ہمیں کوئی سیدھی راہ بتائیں ! وہ عالم حضرت زید کی طرف متوجہ ہوئے اور جواب دیا (ان دونوں کے درمیان یہ مکالمہ ہوا) عالم: اے اونٹ سوار میاں ! تم کہاں سے آئے ہو؟ حضرت زید: میں وادی ابراہیم (مکہ) سے آیا ہوں جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ بنایا تھا۔ یہودی عالم: تم کس لیے آئے ہو؟ حضرت زید: ہم دونوں دین حق کی تلاش میں نکلے ہیں ۔ یہود ی عالم: تم دونوں واپس وادی ابراہیم (مکہ) جاؤ عنقریب تمہارا مقصود تمہیں وہیں حاصل ہو جائے گا نبی آخر الزماں کا ظہور ہونے والا ہے وہ تمہیں بہت جلد مل جائیں گے۔ (دلائل النبوۃ اللبیہقی، باب نمبر ۵۷) یہودی عالم نے شاید اپنی کتاب کے اس جملے سے جواب دیاحضور ﷺ کا ذکر خیر تو راۃ میں ان الفاظ کے ساتھ موجود تھا۔ عَبْدِیْ اَحْمَدُ الْمختَار مَوْلَدُہٗ بِمَکَّۃمیرے پسندیدہ بندے ان کا نام احمد ہے اور جائے پیدائش مکہ ہے۔ (عیون الاثر: ۱/۳۴) اس کے بعد یہ دونوں بزرگ مکہ میں تشریف لے آئے (انہوں نے سوچا کہ محمدﷺ ہی وہ شخصیت ہو سکتے ہیں ، جن کے سر پر تاج نبوت سجایا جائے گا۔ اس لیے ان دونوں نے یقین مزید کیلئے آپﷺ کا ایک امتحان کیا، آپﷺ کسی سفر سے واپس ہوئے اور) وہ خود فرماتے ہیں کہ بیت المقدس ،شام ،یثرب اور موصل و غیرہ کے علماء سے ملنے کے بعد میں نے (فیصلہ کرلیا کہ آخری پیغمبر مکہ کی سرزمین میں ہی ہوں گے میں ان کا انتظار کرتاہوں اور)مزید تلاش و جستجو چھوڑدی۔(دلائل النبوّۃ۲/۲۶)حضرت زید کی تمنا اور محرومی: علامہ واقدیؒ نے حضرت زیدبن عمرو کی روایت بیان کی ہے کہ انہوں نے حضرت عامر رضی اللہ عنہ بن ربیعہ سے کہا تھا: