حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
باب نمبر9: محبوبیتِ عامہ اور عطاء نبوت یہ آخری باب ہے، اس میں اس فضاء کا ذکر ہے جس میں آپﷺ نے ظلمتوں میں چراغ روشن کیے، آسمان وزمین میں ، قلوب واذھان میں اور انسانوں کے رویوں میں جو تبدیلیاں نمودار ہوئیں اور ان آوازوں کا ذکر بھی ہے۔ جو نبی ﷺ کی آمد سے پہلے پوری دنیا سے ترانوں کی شکل میں سنائی دے رہی تھیں ۔ظلمتوں میں چراغ کی روشنی: قبل از اسلام عرب کی مذہبی رسومات اور اخلاقی حالت کا تذکرہ تاریخ وسیر کی سب اہم کتابوں میں موجود ہے۔ یہاں اختصار کی غرض سے دو روایتوں کا مفہوم (تقابلی مطالعے کی روشنی میں ) نقل کرنا ضروری ہے (۱) جس میں حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی وہ تقریر ہے جو انہوں نے حبشہ کے بادشاہ کے سامنے درباری وزراء اور نصرانی علماء کی موجودگی میں کی تھی، (۲)دوسری وہ حدیث ہے جوباب ۲ میں حضورﷺ کی سترہ صفات کے حوالے سے تفصیلاً گزری۔ پہلی روایت میں نبی مکرم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کی ان تعلیمات کا تذکرہ بھی ہے، جو آپﷺ نے اسلام کی ابتداء میں ہی اپنے ماننے والوں کو عنایت فرمائی تھیں ، یہ وہی اخلاقی صفات تھیں جن پر آپ جوانی میں عمل پیرا تھے، اگر آپﷺ کا چالیس سالہ دور حیات ان امور سے خالی ہوتا تو آپﷺ اپنے عزیزوں ، ہم عمروں اور ہم وطنوں کو ان اخلاق کی ہرگز دعوت نہ دے سکتے۔ اس امرِ مسلم کے بعد بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ آپﷺ اس علم کی روشنی میں جی رہے تھے جو اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو بغیر کسی استاد کے دیتے ہیں ۔ اسے علم لدُنی کہاجاتاہے ۔ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے حبشہ کے شاہی دربار میں حضورﷺ کی جو شان بیان کی، ہم اس کے مفہوم کو یہاں اس انداز سے پیش کرتے ہیں کہ بعثت کے وقت عرب کی حالت اور اس کی اصلاح میں حضورﷺ کا کردار کھل کر سامنے آجائے۔شبابِ محمدﷺ اورعلم لَدُنّی: ۱۔ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی تقریر سے معلوم ہوا کہ حضورﷺ علم کی روشنی میں اپنی زندگی کے صبح وشام بسر فرما رہے تھے اور عرب جاہلیت کے اندھیروں میں بھٹک رہے تھے۔ ۲۔ حضور نبی مکرمﷺ صرف اللہ کی پوجا کرتے اسی کا نام لیتے اور اسی سے ڈرتے تھے اور اہل مکہ تین سو ساٹھ بتوں کے پجاری تھے۔