حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
انجام نہ دیتارہا۔ حضور ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ آپﷺ وحی کے نزول سے پہلے بھی صفائی کے ان ضروری کاموں کو انجام دیتے تھے اور نبوت ملنے کے بعد بھی آپﷺ ان کو ضروری سمجھتے تھے، وہ دس کام یہ ہیں ۔ (مرقاۃ المفاتیح: ۱/۳۹۴) -1داڑھی بڑھانا۔ داڑھی رکھنا اور اتنا بڑھاناکہ مکمل ہوجائے، ہمیشہ سے معزّز لوگوں کا شعاررہا ہے کہ یہ خاص مردانہ زینت ہے۔تمام انبیاء علیہم السَّلام کی طرح محمد کریم ﷺ نے بھی داڑھی آنے کے بعد نہیں کٹوائی۔ آپ ﷺ نے داڑھی کے فضائل بھی ارشاد فرمائے۔ کوئی صحابی رضی اللہ عنہ بھی اس سنت ِ رسول سے محروم نہ تھا۔ اعلان اسلام سے پہلے جب آپﷺ کے روئے انور پر یہ بال آئے اس وقت سے دم واپسیں تک اس سُنتِ انبیاء علیہم السلام سے آپﷺ نے پیار رکھا۔ -2مسواک کرنا: سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ملت کے لیے یہ ایسی سُنَّت ہے، جس میں صحتِ انسانی کے بے شمار راز چھپے ہوئے ہیں ، حضور ﷺکی نظافت پسند طبیعت اسے کس طرح نظر انداز کرسکتی تھی؟ اس لیے عام حالات کے علاوہ اسے آپﷺ نے نماز اور وضوء کے امور میں بھی شامل کر لیا۔ -3ناک صاف کرنا ۔ابھی نہ نماز کی فرضیت تھی اور نہ وضو کی فرضیت کاحکم آیا تھا،لیکن ہمارے حضور ﷺ کی عادت میں شامل تھا کہ آپﷺ وضوکرتے تھے ( تاریخ الخمیس ۱/ ۲۲۵) ناک کی صفائی کے لیے پانی کا استعمال فرماتے تھے اسی لیے غسل میں بھی اسے فرض قرار دیا۔ نبی علیہ السلام ہر وضو کے اندرناک میں پانی ڈالتے اور صفائی فرماتے تھے۔ -4ناخن کاٹنا: سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو جن ضروری امورِ زینت کی وحی نازل ہوئی تھی ان میں ناخن کاٹنے کا حکم بھی تھا۔ حضورﷺ نزولِ وحی کے بعد بھی ہر جمعہ کو بڑے اہتمام سے ناخن کاٹتے تھے اور اظہارِ نبوت سے پہلے بھی طبعی ضرورت کے لیے اس صفائی کو لازمی خیال فرماتے تھے۔ -5جوڑوں کی صفائی: حضرت آدم ، حضرت نوح، حضرت عیسیٰ و موسیٰ وحضرت ابراہیم و اسمٰعیل و دیگر حضرات انبیاء علیہم السلام کی سُنّتِ متواترہ ہے کہ جسم کے ایسے اعضاء کو خاص طور پر صاف کیا جائے جہاں میل جم جاتا ہے، حضور کے جسم اطہر پر نہ میل جمتا تھا نہ پسینے میں بدبو تھی، اس کے باوجود اللہ کی نعمت (جسم) کی حفاظت و نظافت کے لیے سب اعضاء کو مل مل کر پانی سے دھوتے تھے۔ (امتاع الاسماع ۲/ ۳۴۷)