حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
بہرحال حضرت نسطورا کو ایمان کی دولت مل گئی، ان کے ساتھ حضرت ورقہ بن نوفل ، زید بن عمرواوربحیرا راہب وغیرہ نے بھی نبوت محمدیہ کی حقانیت کو تسلیم کیا تاہم وہ اہلِ فترت (حضور سے پہلے اور حضرت عیسیٰ ؑ کے بعد آنے والے زمانے) سے تعلق رکھتے تھے بعض مورخینؒ نے انہیں صحابی لکھنے میں احتیاط برتی کہ ان حضرات میں صحابی ہونے کی شرائط نہیں پائی جاتی، ان کے بارے میں اچھا گمان کیا گیا ہے۔ ان میں سے بعض کے لیے حضورﷺ نے فرمایا:انَّہٗ یبعَثُ اُمَۃً وَّاحِدَۃً (الروض الانف ۲/ ۲۳۴) کہ وہ قیامت کے دن ایک امت کی صورت میں اٹھائے جائیں گے۔ فرشتوں کا سایہ کرنا حضرت میسرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب دو پہر ہوتی اور گرمی کی شدت ہوتی تو میں دو فرشتوں کو دیکھتا کہ وہ آکر حضورﷺ پر سایہ کر لیتے ہیں ، جب حضرت محمدﷺ شام سے واپس ہوئے تو دوپہر کا وقت تھا اور دو فرشتے ان پر سایہ کیے ہوئے تھے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے جب بالاخانے سے حضورﷺ کو اس شان سے آتے دیکھا تو پاس کی تمام عورتوں کو بھی دکھلایا تمام عورتیں تعجب کرنے لگیں ۔ حضرت میسرہ رضی اللہ عنہ نے سفر کے تمام حالات و واقعات سنائے اور آپﷺ نے مالِ تجارت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے سپرد کیا، اس مرتبہ آپﷺ کی برکت سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکو اس قدر منافع ہوا کہ اس سے پیشتر کبھی اتنا نفع نہ ہوا تھا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہانے جتنا معاوضہ آپﷺ سے مقرر کیا تھا۔ اس سے زیادہ دیاتھا۔ (عیون الاثر:۱/ ۶۳، شرح الزرقانی: ۱/۳۷۲)ام المومنین حضرت خدیجۃُ الکبری رضی اللہ عنہا کا پیغام مکۃ المکرمہ میں حضرت محمدﷺ اور خواتین میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اپنے اپنے دائرہ کار میں بے مثال تھے، نہ محمدﷺ کے ہم پلہ کوئی لڑکی اور نہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے جو ڑکا کوئی لڑکا ، ایسی صورت میں اللہ کی طرف سے جو فیصلہ ہوا، اس میں لا تعداد تکوینی امور پوشیدہ تھے۔ جیسا کہ ابھی آپﷺنے سفر بصریٰ و شام کا حال پڑھا اس کی ابتدا تا انتہا حضور ﷺ کے نکاح سے متعلق ہے۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہااس سفر سے پہلے، آپﷺکی عقل مندی، راست گوئی، حق پرستی، شرک سے دوری، اعمال خیر کے قرب اور امانت داری سے واقف تھیں ، اسی بناء پر مضاربت کے لیے سیدنا محمد کریمﷺکا انتخاب فرمایا تھا، اس رحلت تجارت میں حضرت میسرہ رضی اللہ عنہ نے جو حالات نبی رحمتﷺ کی شرافت، علاماتِ نبوت اور عاداتِ طیبہ کے دیکھے وہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے سامنے بیان کیے تو اب کوئی وجہ