حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
راہِ خدا میں خرچ کرنے کے ساتھ حضورﷺ کے گھر ہبہ کی اصطلاح بھی استعمال ہوتی تھی، حضرت زید رضی اللہ عنہ کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے حضورﷺ کی خدمت میں ہبہ کے طورپر پیش کیا تھا۔(الاصابہ، حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ) الغرض ایثارو قربانی اوردوسرے انسانوں پر خرچ کرنے کے جتنے طریقے رائج ہونے والے تھے ان پر حضرت نبی کریمﷺ نے اعلانِ نبوت سے پہلے عمل کرلیا تھا جب قرآن کریم اترا تو اسی خدمتِ خلق کے ایک شعبہ کو زکوٰۃ کانام دیا گیا۔قربانی اورتسبیح و مُناجات قربانی سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے آپﷺ کے جد امجد تک جاری تھی، ان سے پہلے سیدناآدم علیہ السلام تک اسکا سلسلہ جاتا ہے، حضور نبی علیہ السلام کا ایک لقب اِبْنُ الذَّبِیْحَیْن ہے کہ جس طرح آپﷺ کے جد امجد حضرت اسماعیلؑ ذبیح اللہ تھے اسی طرح آپﷺ کے والدِ گرامی کوبھی آپﷺ کے دادا نے ذبح فی سبیل اللہ کا ارادہ فرمایا: پھر ایک سو اونٹوں کی قربانی دی تھی۔ (شرح الشفاء ۱/۲۳۵) آپﷺ نے فرمایا: سُنَّۃُ اَبِیْکُمْ اِبْرَاھِیْم (یہ قربانی) تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جاری کردہ ہے۔ (سُنن ابن ماجہ:۳۱۲۷) اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ قبل از اسلام بھی قربانی کا عمل آپﷺ کی ذات والا صفات کو محبوب تھا۔ ایک دن آپﷺ نے صحابہ کو سفر کی نماز کے کچھ مسائل ارشاد فرمائے اور ساتھ یہ بھی فرمایا :تمہارے نبی کو بھی ملت ِابراہیم علیہ السلام پر چلنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (السنن الکبریٰ: ۹۶۴۱) ذکر وفکر:اللہ نے جس فطرت (اسلام) پہ سیدنامحمدکریمﷺ کو بنایا تھا اس کا اظہار ایام رضاعت میں ہی اس طرح ہوگیا تھا کہ آپﷺ سجدے کی حالت میں پیدا ہوئے اور آپﷺ کی زبان پر سب سے پہلے جو کلام جاری ہوا وہ یہ تھا۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کَبِیْرًا وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرًا (المواھبُ اللدنیۃ ۱/۵۳) جس عظیم انسان کے بچپنے کے ایام کا یہ عالم ہو تو جوانی میں وہ غارِ حرا اندر، کبھی صحرائے مدینہ میں اور کبھی اُمّ القریٰ کی وادیوں میں آسمان و زمین اور ان کے درمیان قدرتِ الٰہیہ کے حسین مناظر کو دیکھ کر کیوں نہ کہہ اُٹھتا ہوگا۔ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا، سُبْحانَکَ (اٰلِ عمران: ۱۹۱)