حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
سیدنادو عالمﷺ نے فرمایا: والسَّکِیْنَۃُ فِیْ اَہْلِ الغَنَمِ، (بخاری: ۳۳۰۱) اور عاجزی و تواضع بکری والوں میں ہے۔ اور اونٹ چرانے والوں کے متعلق فرمایا: کہ ان میں غرورہوتاہے ،اس ارشادِ گرامی سے معلوم ہوا کہ آپﷺ اُمت کے مختلف طبقات کی طبائع کو خوب جانتے تھے،او ریہ بھی معلوم ہوگیا کہ آپﷺ سے اونٹوں کو نہیں بکریوں کو کیوں چروایا گیا ؟ (عمدۃ القاری ۱۲/۷۹)ارشاد ِنبویﷺ سے پتہ چلاکہ بکریاں پالنے سے تواضع پیدا ہوتی ہے، بکریوں کی خدمت اور حفاظت کے لیے ان کے پاس سونا اور ان کے رہنے سہنے کی جگہوں کی تیاری اور صفائی ایسے اعمال ہیں جن سے نفس انسان میں عاجزی کی وہ دولت پیدا ہوتی ہے، جس کے بغیررفعت و بلندی کا ملنا ناممکن ہے ۔ آپﷺ نے فرمایا: جس شخص میں ایک رائی کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں نہ جائے گا، ایک شخص نے عرض کی، ایک شخص اچھے لباس کو پسند کرتا ہے کیا یہ تکبر ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: اللہ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ (یہ تکبر کہاں ؟ تکبر تو یہ ہے کہ انسان حق کا انکار کرے اور انسانوں کو حقیر سمجھے۔ (صحیح المسلم حدیث: ۱۴۷) جب عاجزی جنت میں جانے کا ذریعہ ہے تو جس شخص نے پوری انسانیت کو جنت میں لے جانا ہے، اس کی عاجزی و تواضع کا کیا عالم ہوگا؟ بلاشبہ اس تواضع کو پیدا کرنے کے لیے آپﷺ کی باقاعدہ تربیت کی گئی۔دست کاری وعرق ریزی کی فضیلت: اللہ تعالیٰ اس پر قادر تھے کہ آپﷺ کو یہ کام نہ کرنا پڑتا اور غیب سے روزی کے اسباب مہیا بھی ہو جاتے اور عاجزی کی دولت بھی مل جاتی ، گلہ بانی نہ کرنی پڑتی۔ آپﷺ کے لیے من وسلویٰ نازل ہوتا اور آپﷺ کو کچھ بھی نہ کرنا پڑتا، اگر ایسا ہو جاتا توآپ کی زندگی میں ان لوگوں کے لیے اسوئہ حسنہ کہاں سے ملتا، جو ہاتھ سے کام کرتے ہیں اور پسینہ آور محنت سے دنیا کو گل و گلزار بناتے ہیں ، گلہ بانی، ہاتھ کی کمائی اورہاتھ کی محنت کے زمرے میں آتی ہے، اسے آپﷺ نے ایام شباب میں قبل از نبوت اختیار فرمایا، جس کے بارے میں آپﷺ کا نظریہ یہ تھا: دست کاری سے بہتر کوئی روزی کا ذریعہ نہیں ہو سکتا، حضرت داؤد علیہ السلام بھی ہاتھوں سے کام کر کے روزی حاصل کرتے تھے۔ (بخاری، کتاب البیوع: ۲۰۷۲)