حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
السیرۃ:۱/۱۲۷)۔ظہورِ اسلام سے پہلے محرم کاروزہ رکھاجاتاتھااوراسلام میں بھی دس محرم کاروزہ فرض رہاحتّٰی کہ رمضان کے روزے فرض کردیے گئے۔ آپﷺ نے ایک روز فرمایا: ہم افطار میں جلدی کرتے (یعنی غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب سے بھی پہلے ہم افطار کرتے اور پھر نماز پڑھتے) ہیں اور صبح صادق سے پہلے تک سحری کرتے ہیں ، یہ عمل سابق مرسلین کی سنتوں میں سے ہے۔(اَلتّلخِیْصُ الحَبِیر: حدیث نمبر ۳۳۱)حج اور توفیقِ الٰہی کی شہرت: کعبۃ اللہ ہمیشہ ہی مرکزایمان رہا،آپﷺ اس کی مکمل تعظیم کرتے(الروض الانف :۱/۱۴۷)اور جب غارِ حرا سے واپس آتے تو طواف کرتے پھر گھرجاتے۔(سبل الہدیٰ المقدمہ ص ۱۲)حضرت محمدﷺ حج کے تمام افعال بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیتے تھے آپﷺ نے دیکھا کہ کچھ لوگ بغیر لباس طواف کرتے ہیں تو آپﷺ نے اپنے ملبوسات میں سے کچھ کپڑے حجاج کوپہنائے۔ (المحبر: ۱۸۷۱) آپﷺ کا نظریہ تھا کہ حج بیت اللہ کے لیے آنے والے سب انسان اللہ کے مہمان ہوتے ہیں ، ان کی خاطر مدارات سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتے ہیں ۔ رسولِ رحمتﷺ کے سب کام اور آپﷺ کی مبارک عادات کے متعلق معروف ہو چکا تھا کہ ان کی خوبصورت ادائوں کے پیچھے اللہ کی توفیق شاملِ حال ہوتی ہے۔ حضرت جبیر بن مطعم اور حضرت ربیعۃ الجرشی رضی اللہ عنہما حج کے لیے گئے، انہوں نے دیکھا کہ (قریش کی عادت کے بر خلاف) حضرت محمدﷺ عرفات میں بھی تشریف لے گئے اور ’’وقوفِ عرفات‘‘ کیا، ان دونوں حضرات کے الگ الگ بیانات کتابوں میں لکھے ہیں ، دونوں میں سے ہرایک بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت محمدﷺ کومیدان عرفات میں وقوف کرتے دیکھاتو دل میں یہ سوچا کہ حضرت محمدﷺ کو اللہ کی طرف سے خصوصی توفیق سے نوازا جاتا ہے، (الخصائص الکبریٰ۱/۱۵۲) کہ آپﷺ ملت ابراہیمی کے وہ کام بھی کرتے ہیں جو دوسرے لوگ نہیں کرتے۔ اورحج تو ان خصائص میں سے ہے جو سب نبیوں کے درمیان مشترک ہے اسے حضرت نبی علیہ السلام کیسے چھوڑ سکتے تھے؟ حضرت ہود اور حضرت صالح علیہما السلام کی قوم نے ان کو اتنا الجھائے رکھا کہ وہ دونوں نبی اپنے اپنے ادوار میں حج کو نہ جا سکے (سیرۃ ابن اسحاق: ۱/۹۵) ان کے علاوہ ہر نبی نے یہ فریضہ ادا کیا، حج کے افعال میں سے اکثر سُنن کاتعلق آج بھی ابراہیم علیہ السلام سے ہے۔