حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
آپﷺ کی پیدائش سے سینکڑوں سال قبل اعلان کردیا گیا، کہ سب سے آخری پیغمبر ایسے ہوں گے کہ ان سے پہلے اور ان کے بعد کوئی شخص بھی ان جیسا اعلیٰ صفات کا حامل نہ ہوگا اور یہ اعلان بعثت نبوت تک بھی جاری تھا، اسی لیے یہودیوں کو آمد مصطفیﷺ کا انتظار تھا۔(سورۃ البقرہ :۸۹ میں اہلِ کتاب کے انتظارکا ذکر ہے۔)امانت، قوت اور اطاعت ’’اَلَأمِیْن‘‘یہ کوئی خاندانی لقب نہ تھا اور نہ وحی الٰہی اور کشف و کرامات کے ذریعہ کوئی پیش گوئی اس کی محرک تھی، کسی نجومی نے بھی آپ ﷺکو ’’اَلَأمِیْن‘‘ قرار نہیں دیاتھا۔ بلکہ اس قومی اعزاز کے پیچھے، شرافت و نجابت، خدمتِ خلق، حیاء و پاکدامنی، بڑوں کا ادب ، چھوٹوں پہ مہربانی، اصول تجارت اور باہمی معاملات کے عہد و پیمان کی پاسداری جیسے وہ اخلاقی جواہر تھے، جو کسی بھی جوان میں ہوں تو وہ ملک و ملّت کی آنکھ کا تارا ہوتا ہے۔ ہمارے عظیم پیغمبر ﷺ کی صفت امانت حضرت جبرئیل علیہ السلام سمیت سب فرشتوں اور انسانوں سے بڑھی ہوئی تھی، امین کا قوی اور معزز ہونا ضروری ہے، قرآن کریم نے ’’اَلَأمِیْن‘‘حضرت جبریل علیہ السلام کو قرار دے کر اس اَمَانَتْ کے لوازم کا بیان بھی کیا ہے، فرمایا: ذِیْ قُوَّۃٍ عنْدَ ذِیْ العَرْشِ مِکیْنٌ مُطَاعٍ ثَمَّ اَمِیْن(التکویر:ا۲،۲۰) ’’جو قوت والا ہے جس کا عرش والے کے پاس بڑا رتبہ ہے، وہاں اس کی بات مانی جاتی ہے ، وہ امانت دار ہے۔ ‘‘ اس قرآنی اندازسے معلوم ہوا کہ امین ہونے کے لیے قوت اور رُعب و دبدبہ بھی ضروری ہے کہ کوئی طاقت ور انسان اپنی نخوت کے بل بوتے پر امین کو خیانت پر مجبو رنہ کرسکے اور نہ اسے بے بس کرکے خود خیانت کا مرُتکب ہو۔ آپ ﷺ کومنجانب اللہ ایک طاقت ور احترام سے نوازا گیا جس کی وجہ سے آپﷺکی قوم آپ ﷺ سے فیصلے کرواتی اور انہیں نافذ ُالعمل قراردیتی تھی ،یہ ’’مُطَاع‘‘ یعنی لائق اتباع اور ذی القوۃہونے کی بین دلیل قبل از اسلام قائم ہوچکی تھی اور حضور ﷺ کے مطاع ہونے کا مظہر وہ واقعہ بھی ہے جو حجر اسود کو اس کی جگہ پہ رکھنے کا پیش آیا کہ ہر ایک نے اُن کے فیصلے کو تسلیم کرلیا۔ اس کے علاوہ بھی نبی علیہ السلام کے فیصلوں کے متعدد واقعات ہیں (شفاء ۱/۴۹۹) اس آیت کی روشنی میں حضور ﷺ نے فرمایا:میں زمین و آسمان میں امین ہوں (الخصائص الکبریٰ:۲/۳۲۱)نوجوان بزرگ: سیدنا محمد کریم علیہ الصلوٰت والتسلیم کو اپنی قوم اورجزیرۃ العرب کے اندر نوعمری ہی میں بزرگی کامرتبہ حاصل ہوگیا تھا اور آپ ﷺ کے علم و فضل ، عقل مندی، سنجیدگی اور دانشوری کو تسلیم کیا گیا جس طرح سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے