حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم عرضِ مؤلّف سب تعریفوں کے لائق اللہ وحدہ لاشریک لہ ہے اور بے شمار رحمتیں ہوں حضرت محمدﷺ کی ذات پر جب سے انسانیت کی ابتدا ہوئی اس وقت سے ہی حضرت نبی مکرم علیہ السلام کا ذکر خیر زمین وآسمان میں ہو رہا ہے اور کتب سماویہ وارضیہ میں لکھا جا رہا ہے، لکھنے والوں نے اپنی دانست میں کوئی موضوع نہیں چھوڑا ۔ لیکن یہ دعویٰ بھی کسی نے نہیں کیا کہ اب کوئی نیا پہلو اجاگر نہ کیا جائے گا، یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور رہے گا ، آخری نبی ﷺ کی ذات والاصفات کو اللہ نے بنایا ہی ایسا ہے کہ تاقیام حشران کی توصیف ہوتی رہے اور موضوعات ابھی باقی ہوں ، سیرت کایہ جلسہ نہ معلوم کب سے شروع ہے؟ سخنور آرہے ہیں اور اپنے حصے کا تحریری وتقریری کام کرتے جا رہے ہیں ، ابھی ایک نووارد کی باری ہے، جو سید دو عالم ﷺ کے دورِ شباب کی چند کلیاں لے کر ان کی امت کے سامنے سٹیج پہ نمودار ہوا ہے، جو اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا گیا، وہ یہ بتانا چاہتا ہے کہ ہمارے رہبر و راہنما ﷺنے اعلانِ نبوت سے پہلے کیسی زندگی گزاری وہ کیا انسانی جواہر ہیں جو ایک انسان میں ہوں تو خالق و مالک اسے دارین کی سعادتیں اور سرفرازیوں سے نوازتے ہیں : وہ یہ سمجھتا ہے کہ رحمتِ دو عالم ﷺکی عمر مبارک کے تما گوشے اپنے اندر سنہری کرنیں رکھتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : لَعُمْرُکَ اِنَّ ھُمْ لفیْ سَکْرَتِھِمْ یَعْمَعُوْنَ (سورۃ الحجر: ۷۲) (اے نبی !)آپﷺ کی زندگی کی قسم! حقیقت یہ ہے کہ (قومِ لوط کے) یہ لوگ اپنی بدمستیوں میں اندھے ہو رہے ہیں ۔ اس ارشاد ِگرامی میں اللہ جس حیاتِ مبارکہ کی قسم کھاتے ہیں ، وہ اس کے آخری رسولﷺ کی مکمل زندگی ہے، اس میں اعلانِ نبوت سے پہلے کے ماہ وسال بھی شامل ہیں ، جو اس قسم سے پہلے گزر چکے تھے۔ کلام الٰہی کے رمز شناس جانتے ہیں کہ قرآن کریم میں اللہ نے جن چیزوں کو قسمیں کھائی ہیں ان کا یہی مطلب لیا گیا ہے کہ اللہ نے ان کی قسم کھا کر ان اشیاء کی اہمیت واضح کی ہے، جس طرح آسمانی نظام میں سورج، چاند، ہوائیں اور خود آسمان غیر معمولی مخلوق ہے، قرآن کریم میں اللہ نے آسمان اوران چیزوں کی قسم کھائی ہے۔ کلام الٰہی کے مجموعی مطالعے سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں رسولِ رحمت ﷺ کی حیاتِ طیبہ دنیا و آخرت کی سب سے زیادہ محبوب شے ہے، اس آیت میں اسی لیے