حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
داری خود اللہ نے لی ہے جیسے نبی محترم ﷺ کی پاکیزہ ومنزہ جوانی کے پیچھے اللہ کی مددِ خاص تھی ، عام لوگوں کے لیے اس کے ساتھ محنت شرط ہے یاد رہے کہ اللہ فرماتے ہیں ۔ لَیْسَ لِلْاِ نْسَانِ اِلَّا مَاسَعٰی (النجم:۳۹) ترجمہـ:ہر انسان کو اس کی کوشش کا بدلہ ضرور ملتا ہے۔ اور یہ کہ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِینَا لَنَھْدِ یَنَّھُمْ سُبُلَنَا۔ (العنکبوت:۶۹) ترجمہ:جو ہمارے دین پر چلنے میں کوشش کرتے ہیں ہم ان کے لیے اپنے رستے ضرور کھولتے ہیں ۔ معلوم ہوگیا کہ اللہ کی وہ تائید و امداد جو ایک انسان کو بے حیائی اور لایعنی سے بچاتی ہے، وہ آج کے نوجوان کے ساتھ بھی ممکن ہے بشر طیکہ وہ مقدور بھر کوشش کریں ۔ وحی الٰہی یعنی کتاب و سنت کا علم، اس پر عمل کرتے ہوئے، بے حیائی سے بچنے کے بیشمار فوائد اور برائی میں مبتلاا ہونے کے نقصانات کے لاتعداد واقعات کا ظہور اور ان حقائق کا ہم تک پہنچانے کا خدائی نظام واضح کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ نظام ہر انسان کے لیے جاری ہے کہ کوشش کرنے والے کو بے حیائی سے بچا لیا جائے۔ جبکہ حضرات انبیاء علیہم السلام کو روشن و منور شباب سے خصوصی طور پر نوازا جاتا ہے، اس لیے کہ انہوں نے قوموں کی راہنمائی جیسا عظیم فریضہ ادا کرنا ہوتا ہے۔قلبِ محمّد ﷺ کی آواز اب آپﷺ کے چند اقوال مُبَارَکہ نقل کیے جاتے ہیں ، جن کا مفہوم بتاتا ہے کہ ان نظریات کا تعلق قبل از نبوت کی قلبی کیفیات کے ساتھ ہے۔ ان اقوال مبارکہ کے راوی سیّدنا عَلیُّ المُرْتضٰی رضی اللہ عنہ ہیں ، جو آپ ﷺ کے ایّامِ شباب ہی کے دوران آغوش نبوت میں آ گئے جب ان کے عمّ زاد محمد اَلصَّادِ ق وَالْاَمِیْنِ کی شادی ہوئی وہ اس گھر میں موجود تھے، جہاں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہاکو بیاہ کر لایا گیا تھا، حضرت علی رضی اللہ عنہنے حضور اکرمﷺ کاایک فرمان نقل کیاہے،جسے ہم نے ’’قلبِ محمدﷺ کی آواز‘‘ کاعنوا ن اس لیے دیا ہے کہ اس کے مضامین وہی ہیں جو نزولِ وحی سے پہلے آپﷺ کے نظریات تھے ،حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی وجہ سے یہ احتمال بھی ہے کہ یہ فرمان اعلانِ نبوت سے پہلے کاہے ، ایسا نہ بھی ہو تب بھی آپﷺ کی جوانی کے اعمال و اخلاق کی ترجمانی اس طویل حدیث میں موجودہے، حضور ﷺ نے فرمایا: (۱) الْعَقْلُ اَصْلُ دِیْنِیْ(میرے دین کی جڑ عقل ہے)۔ آپﷺ کایہ فرمان قرآنی ارشاد :۔وَمَایَذَّکَّرُ اِلَّا اُوْلُوْ الْاَلْبَابِ۔ (۳/البقرہ:۲۶۹)