حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
اسلام کی آمد کے بعد کچھ صحابہ کرام وقوفِ عرفات میں موقف (جہاں قیام کا حکم ہے وہاں ) سے ذرا دور بیٹھے ہوئے تھے، آپﷺ نے ان کے پاس ایک صحابی رضی اللہ عنہ کو بھیجا اور فرمایا: اپنے مشاعرِ حج میں رہو، تم کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نقشِ قدم پر رہنے کا حکم ہے۔(سنن النسائی: ۳۰۱۴) اس ارشاد مبارک سے قبل از اسلام حضورﷺ کی سنن عبادیہ کی جہت کا اندازہ کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے کہ آپ کا رُخ فطری انداز میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جاری کردہ اعمال کی تلقین کی طرف تھا۔بدعاتِ حج میں حضورﷺ کا موقف دیگر نیک اعمال کی طرح حج میں بھی حضرت محمدﷺ آبائو اجداد کے رواج و رسوم کے پیرونہ تھے، حضورﷺ ان معدودے چند اشخاص میں سے تھے، جو اس مذہبی اور دین حنیف کے رکنِ خاص کو پوری شرائط اور ضوابطِ ابراہیمیہ کی روشنی میں ادا کرتے تھے۔یہاں صرف تین اصلاحات کاذکر کیاجاتاہے جوحضور نبی اکرمﷺ نے اعلانِ اسلام سے پہلے فرمائیں ، اورجب وحی کا سلسلہ شروع ہواتواللہ نے آپﷺ کی کوشش سے جاری ہونے والی سنن ابراہیم علیہ السلام کو قرآن کاحصہ بنادیا۔(شرف المصطفیٰ ﷺ۳/۶۲)(۱)قیامِ عرفات کا احیاء: ایامِ حج میں قریش میز بانانِ حجاج ہوتے تھے، ان کے لیے کھانے کے انتظامات، پانی کی سبیلیں اور رہنے کے لیے خیموں کی تنصیب اپنا مذہبی فریضہ سمجھتے، ان کے ساتھ ارکانِ حج کی ادائیگی کو سعادت شمار کرتے تھے لیکن وہ حدود حرم سے باہر جانا اپنی شان میزبانی اور منصبِ پاسبانی کی توہین شمار کرتے تھے، ایک بار ایسا ہوا کہ سیدنا محمدکریمﷺ نے مکمل اراکین حج ادا فرمائے حتیٰ کہ اہل مکہ، بزرگان قریش اور قائدین عرب مزدلفہ ٹھہر گئے (جسے افاضہ کہا جاتا ہے) لیکن نبی محترم علیہ الصلوات والتسلیمات عرفات تشریف لے گئے، وہیں سے افاضہ فرمایا۔ (الخصائصُ الکبری: ۱/۱۵۲) قریش کو حضرت محمدﷺ کا عرفات جانا ہضم تو نہیں ہو سکتا تھا لیکن حضورﷺ کو ا ن باتوں کی پرواہ نہ تھی، ایک غیبی طاقت آپﷺ کی راہنمائی ایسے امور کی طرف کرتی تھی جو دینِ حق کے لیے ضروری ہوتے تھے اور مستقبل قریب میں حضرت محمدﷺ نے بحکمِ خداوندی ان لوگوں کو جس ضابطۂ شرعیہ کی طرف بلانا تھا، اس پر آپﷺ نزولِ وحی سے قبل ہی عمل کر لیتے تھے خواہ وہ شہری رسم کے سراسر خلاف ہوتا۔ مثال مذکور میں ہے کہ سیدنا محمد عربیﷺ نے ان کے آبائی طریقہ حج کی مخالفت کرتے ہوئے عرفات سے افاضہ فرمایا، جب نزولِ قرآن شروع ہوا تو آسمانی حکم ہوا ثُمَّ اَ فِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ (البقرہ: ۱۹۹)