حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
رقم کیا جاتا ہے۔ اس میں ایک درسِ خاص یہ ہے کہ عرب میں غلاموں کا سلسلہ بکثرت تھا، ان کے حقوق کا لحاظ رکھنے، ان کی شکایات کے ازالے اور ان کے ساتھ انسانی سلوک کا کوئی انتظام نہ تھا، قبل از نبوت ہی سیدنا محمدﷺ نے اپنے غلام کو انسانی حقوق دے کر لوگوں کو بھلائی کی راہ دکھائی۔(شرف المصطفیٰ ﷺ۳/۲۶۴)حضرت زید رضی اللہ عنہ بن حارثہ: غلامی سے مقامِ محبوبیت تک: یمن کے ایک معزز قبیلہ بنو قضاعہ (بنو کلب) کے رئیس حارثہ بن شراحبیل کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں سے خوب نوازا تھا۔ قبیلہ طے بنو معن(من بنی طی) کی ایک نیک سیرت خاتون سعدیٰ بنت ثعلبہ اس کی رفیقہ حیات تھی۔ اولاد بھی اللہ تعالیٰ نے دے رکھی تھی اور مال و دولت کی بھی کوئی کمی نہ تھی۔ میاں بیوی اور تین بچوں اسماء، جبلہ اور زید پر مشتمل یہ چھوٹا سا کنبہ ہنسی خوشی سے دن گزار رہا تھا کہ یکایک ہوا کا رخ بدل گیا۔ (الاصابۃ: ۲/۴۹۴،اسد الغابۃ: ۲/۱۲۹) اس گھر کی خوشیوں کو نظر لگ گئی اور بچوں کی ہنسیاں بھی جاتی رہیں ۔ سعدی ایک دفعہ آٹھ سالہ فرزند زید کو ساتھ لے کر ایک قافلہ کے ہمراہ اپنے والدین کے گھر جا رہی تھی کہ راستے میں بنو قین بن جسر کے لوگوں نے قافلہ پر چھاپہ مارا۔ مال و اسباب کے علاوہ سعدی کے لختِ جگر کو بھی ان سے چھین لیا اور نظروں سے غائب ہو گئے۔ اپنے نورِ بصر کے یوں چھن جانے سے ماں کی دنیا اندھیر ہو گئی وہ دھاڑیں مار مار کر روتی تھی، اس کی فریاد اور نالوں سے زمین و آسمان کا کلیجہ پھٹا جاتا تھا۔ (الاصابۃ: ۲/۴۹۵) بچے کے والد حارثہ کو اپنے فرزند دلبند کے اغوا ہونے کی خبر ملی تو وفور رنج و الم سے دیوانہ ہو گیا، زید کی تلاش میں قریہ قریہ اور کوچہ کوچہ زید زید پکارتا پھرتا تھا۔ صحرا، جنگل، پہاڑ سب چھان مارے لیکن زید کا کھوج نہ ملتا تھا۔ بیٹے کی جدائی میں وہ ایسے غمناک اشعار پڑھتا کہ سننے والے رونے لگتے۔ فراقِ پسر میں دیوانہ باپ چرند پرند، شجر و حجر ہر ایک سے التجا کرتا تھا کہخداکے لیے میرے فرزند کا کچھ تو پتا دو۔ لو کے جاں سوز تھپیڑوں اور نسیم سحری کے روح پرور جھونکوں سے بھی اس کی یہی التجا تھی کہ خدا کے لیے میرے نور نظر کا پتہ لا دو! بیٹے کے فراق میں اس کے کہے ہوئے نوحے زبان زدِ خلائق ہو گئے تھے وہ جب اپنے یوسف گم گشتہ کے لیے یہ نوحہ پڑھتا تھا تو دوست تو دوست دشمن بھی رو دیتے تھے، اس کے کچھ اشعار کا ترجمہ یہ ہے: ’’میں زید کے لیے رویا پیٹا لیکن معلوم نہیں وہ کہاں گیا، نہ معلوم وہ زندہ ہے کہ اُمید کا دیا روشن رکھوں یا اس نے جام اجل پی لیا، بخدا میں بار بار پوچھتا بھی ہوں ، پھر بھی نہیں جانتا کہ تو نرم زمین کی پنہائیوں میں غرق ہو گیا یا تجھے پہاڑ نگل گیا۔