حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
جانثاروں کے ذریعے پوری دنیا میں امن و انصاف کا پرچم لہرانا تھا اس لیے اعلانِ نبوت سے پہلے بھی آپﷺ کی زندگی کا ابتدائی حصہ اور قوت و شجاعت قیام امن کی کوشش میں صرف ہونا شروع ہوچکے تھے۔ چنانچہ جیسے ہی مکہ میں اس مظلوم کی آواز ابھری، اس کی فریاد کو سنتے ہی ہر طرف سے لوگ دوڑ دوڑ کر اس کے پاس پہنچ گئے اور انہوں نے یہ کہتے ہوئے اپنی تلواریں کھینچ لیں :تمہارے لیے مدد آ گئی تمہیں کیا حادثہ پیش آیا…؟ اس نے کہا: نبیہ نے میری بیٹی کے معاملے میں مجھ پر ظلم کیا ہے اور اسے مجھ سے زبردستی چھین کر لے گیا ہے۔ یہ سنتے ہی یہ سب لوگ فوراً نبیہ کے مکان پر پہنچے اور اس کے مکان کے دروازے پر جا کر اسے بلایا۔ نبیہ جب باہر آیا تو ان لوگوں نے اس سے کہا: لڑکی کو باہر نکالو، تمہارا برا ہو ،تم نہیں جانتے ہم کون ہیں اور ہم نے کیا عہد کیا ہے؟ نبیہ نے کہا:میں لڑکی کو واپس کروں گا مگر آج کی رات مجھے اس کے ساتھ گزارنے دو! بزرگوں اور نوجوانوں کی اس انجمن کے اراکین نے زور دے کر کہا: ’’ہرگز نہیں ، ہم ایک گھڑی کے لیے بھی لڑکی کو تمہارے پاس نہیں رہنے دیں گے۔‘‘ امن جماعت کے اراکین نے بالآخر اس لڑکی کو اس کے چنگل سے آزاد کروا کر دم لیا۔ (سیرۃ ابن کثیر:۱/۲۵۹) وقت کے ساتھ اس جماعت کے اصول و ضوابط میں کمزوری آتی رہی حتیٰ کہ تاریخِ مکہ میں صرف اس کا ایک نام باقی رہ گیا۔ لیکن محمد عربی علیہ السلام اسی طرح ظلم کے خلاف جنگ لڑتے رہے، یہاں تک کہ دنیا سے پردہ فرمایا۔ حضرت محمد مصطفیﷺ ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ اس قسم کی جماعت اب بھی بنے تو میں اس کی تائید میں پہلا شخص کھڑا ہوں گا۔(الطبقات الکبریٰ:۱/۱۲۹)امن معاہدے کے فوائد: جب تک انجمن کے اجلاس ہوتے رہے حرم و جوارِ حرم میں اس کے فوائد ظاہر ہوتے رہے: ۱۔ اس معاہدے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ تاجروں کے لیے راستے محفوظ ہو گئے۔ عربوں کا اقتصادی نظام صرف تجارت کا مرہونِ منت تھا، ہمسائے ملکوں سے درآمدات و برآمدات کے لیے راستوں کا مامون ہونا ضروری تھا، ان کی یہ اشد ضرورت اس معاہدے سے پوری ہوئی۔