حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
اورنبیوں کی دوسری خاصیت کابیان یہ ہے :بعض ارشاداتِ عالیہ سے واضح ہوتاہے کہ سیدنا محمّد ﷺ کے قلبِ اطہر پر مرضیاتِ الٰہیہ کے نزول کا سلسلہ نبوت ملنے سے پہلے بھی تھا اس کی شکل مذکورہ تینوں میں سے کوئی بھی ہوسکتی ہے اس کی ایک کھلی دلیل یہ کہحضرت محمدﷺ ہر نیکی کے کام سے محبت رکھتے اور برائی کے امور سے بچتے تھے، حضرت محمدﷺ کی راہنمائی مسلسل ہو رہی تھی ۔ نوعمری میں کعبہ کی تعمیر میں بچے پتھراٹھاکردے رہے تھے۔ایک دن آپ کو کہا گیا کہ چادر جو نیچے پہن رکھی ہے ،اسے آپﷺکندھے پہ رکھ کر پتھر اٹھائیں تو آپﷺ نے فرمایا: نُھِیْتُ اَنْ امْشِیْ عُرْیَانًا(شرح الشفا ۱/۷۵۴) مجھے بے لباس پھرنے سے روکا گیا ہے۔ اس وقت کون کس ذریعے سے اُن کو خلاف ادب کاموں سے روک رہا تھا؟ یہ اللہ اور اس کے رسولﷺ جانیں تاہم اس کی روشنی میں یہ ضرور معلوم ہوا کہ صراط مستقیم کی راہنمائی کا کوئی سلسلہ ضرور تھا۔ جس کی وجہ سے حضرت محمدﷺ کے کلام میں بھی نورِ وحی نظرآتا تھا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ایک دن عرض کی:آپﷺکی عادات سے اندازہ ہوتاہے کہ آپﷺ اللہ کے نبی ہوں گے ، تب آپ میرے حق کا خیال رکھیے گا! آپﷺنے فرمایا: اگر ایسا ہوگیا تو میں تمہارے حق (وفا داری) کا خیال رکھوں گا، اگر ایسا نہ ہوا تو اللہ کے لیے جو خدمات آپ نے انجام دی ہیں اس سلسلے میں اللہ آپ کے اجر کو ضائع نہیں کریں گے۔ (السّیرۃ الحلبیۃ: ۱/۲۰۳) یہ اعلان نبوت سے پہلے کا کلام نبوی ہے، جو آیت فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ المُحْسِنِیْنَ (اَلتّوبۃ:۱۲۰) کے مشابہہ و ہم معنیٰ ہے، اس کے معنیٰ یہ ہیں : اللہ نیکی کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتے۔ یہاں تک یہ ثابت ہوچکاکہ دیگرنبیوں کی طرح ہمارے حضورﷺ بھی پیدائشی نبی تھے اور نزولِ وحی سے پہلے اللہ تعالیٰ ان کی زبان سے نبیوں جیسا کلام صادر کرواتے تھے۔عقائد، توحید، رسالت اور آخرت یہ بنیادی عقائد ہیں جن کی طرف سیدنامحمدﷺ نے لوگوں کودعوت دینی تھی ،ا س لیے آپﷺ خود ان عقائد پہ قائم رہے ۔نبی علیہ السّلام کی پیدائش کے بعد اولّین ایام میں ہی اس طرح کے کلمات آپﷺ کی زبانِ مبارک سے سنے گئے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ توحید کے کلمات آپﷺ کی زبان مبار ک نے روز اول میں ادا کیے، وہ یہ تھے:۔سُبْحَانَ اللّٰہِ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ، اَللّٰہُ اَکْبَرْ اور لَآ اِلٰہَ الاَّ اللّٰہُ دیگراذکار بھی منقول ہیں ۔ (الشمائل الشریفہ : ۱\ ۳۷۶)(السِّیَرۃُ الحَلبِیَۃ:۱/۱۱۲)