حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
جب سورج نکلتا ہے، ایک روشنی آسمانی کناروں پہ پھیل جاتی ہے۔ اسی طرح ابھی سِرَاجاً مُّنِیْرًا کی آمد قریب تھی اور اس کی روشنی دھیرے دھیرے پھیل رہی تھی، اس وقت کے نیک انسان عرب کی ڈوبتی ناؤ کا سہارا سیّدنا محمدﷺ کو ہی سمجھ رہے تھے۔حضرت اکثم رضی اللہ عنہ (حکیم العرب) کا اعتراف اور پیش گوئی: حضرت اکثم بن صیفیؒ معروف تابعی ہیں ، بیرون مکہ سے حج و عمرہ کے لیے آیا کرتے تھے، اسلام کا زمانہ اور طویل عمر پائی، نبی مکرمﷺ کو قبل از نبوت ملے تھے اعلان اسلام کے بعد اپنے بیٹے کی سرکردگی میں ایک وفد مدینہ منورہ روانہ کیا، سارا وفد مسلمان ہو گیا، حضرت اکثمؒ خدمت نبوی میں حاضری کے لیے گھر سے چلے اور راستے میں وفات پائی اس لیے ان کو تابعین میں شمار کیا جاتا ہے بڑے شاعر اور خطیب شمار کیے جاتے تھے۔ (شعراء النصرانیۃ، ذکر اکثم بن صیفیؒ) حضرت اکثمؒ حج کے لیے مکہ مکرمہ آئے دوسرے علاقوں کے جو ادیب، شعراء اور سردار آتے تھے وہ مکہ کے سردارو متولی کعبہ کے پاس ضرور حاضر ہوتے، اس گھر میں ان کی ملاقات نبی اکرمﷺ سے بھی ہو جاتی تھی، آنے والے جب حضورﷺ کو دیکھتے تو تبصرہ ضرور کرتے تھے۔ اس دوران حضرت اکثم رضی اللہ عنہ کی ملاقات بھی عم رسول(ﷺ) جناب ابو طالب سے ہوئی، ان کے پاس حضرت محمد مصطفیﷺ تشریف رکھتے تھے،آپﷺ کی عمر اس وقت ۱۷سال کے قریب تھی تھی حضرت اکثم حَکِیْمُ الْعَرَب کہلاتے تھے چنانچہ انہوں نے اپنی مردم شناسی، تجربہ اور علم کی روشنی میں ابو طالب سے یہ گفتگو کی۔ حضرت اکثم بن صیفیؒ: تمہارا یہ بھائی بہت ہی تازہ دم جوان رعنا ہے) اور کس قدر جلد جوان ہوا ہے۔ جناب ابو طالب: یہ میرا بھائی نہیں ، میرا بھتیجا ہے۔ حضرت اکثمؒ: کیا یہ اِبْنُ الذَّبِیْحَیْن (عبداللہ بن عبدالمطلب اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے) ہے؟ جناب ابو طالب: جی ہاں ! پھر حضرت اکثمؒ اپنی خداداد فراست سے بولے اور کہا: اے ابو طالب !تمہارا اس نوجوان کے متعلق کیا گمان ہے؟ جناب ابو طالب: ہم بڑا اچھا تصور رکھتے ہیں ، یہ نو عمر بڑا سخی ہو گا اوربڑاوعدہ وفا ہے۔ جناب اکثمؒ: اس کے علاوہ آپ کیا سوچتے ہیں ؟ جناب ابو طالب: یہ نوجوان بہت ہی بابرکت ہے، جس (انسان پریاکسی کھانے پینے کی) چیز پر ہاتھ لگا دے وہ شے بابرکت ہو جاتی ہے۔ دوستوں کے حق میں نرم اور دشمن کے لیے سخت، مجلس کی روحِ رواں ہے۔