حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
حضورﷺ کے گھر میں ہی یہ جوان ہوئے آپﷺ نے ہی حضرت زید رضی اللہ عنہ کی شادی کی، جب اولاد ہوئی ایک بیٹے کا نام حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ رکھا گیا تو حضرت محمدﷺ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے اتنی محبت فرماتے تھے کہ ان کو بھی یہی لقب حاصل ہوا اور بعض اوقات نام کی جگہ الفت رسولﷺ کے حوالے سے ہی ان کو پہچانا جاتا اور ان کو ’’اَلْحُبُّ اِبْنُ الْحُبِّ‘‘ کہا جاتا۔ (محبوبِ رسول کا محبوبِ رسول بیٹا) کہا جاتا تھا۔ (الاصابۃ: ۱/۲۱۰) کہاوت بھی ہے اور تجربہ بھی کہ اپنے بچوں سے زیادہ پوتے ، پوتیوں سے اور بچیوں سے زیادہ نواسے، نواسیوں سے پیار ہوتا ہے، اسی وجہ سے حضورﷺ کو حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے بہت محبت تھی حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے یہ تعلق اسی پیار کا تسلسل تھا جوحضرت محمدﷺ نے ان کے والد حضرت زید رضی اللہ عنہ سے اس وقت فرمایا جب ابھی نزول وحی کی ابتدا نہیں ہوئی تھی لیکن حضرت محمدﷺ کے مزاج اقدس میں انسانیت کے ناداروں اور بے سہارا لوگوں سے سچی خیر خواہی کا جذبہ موجود تھا جو ایک نبی میں ہونا چاہیے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ ابتدائی عمر ہی میں حضورﷺ کی تربیت میں حضرت زید رضی اللہ عنہ کی آمد سے پہلے موجود تھے، ان دونوں حضرات کی تعلیم و تربیت خود نبی اکرمﷺ نے کی ہے، ان حضرات کے اس حسنِ اتفاق میں دو اہم سبق پوشیدہ ہیں : ۱۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ (آپﷺ کے چچازاد)زیر کفالت تھے، یہ اس صلہ رحمی کی ابتدا تھی جس کا درس آپﷺ نے اقوام عالم کو ظہور اسلام کے بعد دینا تھا۔ ۲۔ اسی گھر میں ایک غلام کو اپنے بچوں سے زیادہ شفقت دی جا رہی تھی، یہ اس رفاہ ِعام کی ابتدا تھی جس کا سبق آپ ﷺاعلانِ نبوت کے بعد یوم وفات تک دیتے رہے۔پدری و مادری کردار: حضرت زید رضی اللہ عنہ آٹھ سال کی عمر میں گم ہوئے مکہ کے بازار میں فروخت ہو کرحضرت محمدﷺکی تربیت میں پہنچے۔کھاتے پیتے گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ اہل خانہ سے طویل جدائی پائی جب ان کے والد، چچا اور بھائی تلاش میں کامیابی کے بعد اس گھر تک پہنچے، جہاں حضرت زید رضی اللہ عنہ حضرت محمدﷺ کے پاس رہتے تھے، اس وقت والد کی حیرت کی انتہا نہ رہی، جب زید کو کہا گیا: چلو اس جگہ پہ جہاں تمہیں امی اور ابو کی دولت میسر ہو گی تو نو دس سالہ زید رضی اللہ عنہ حضورﷺ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: اَنْتَ مِنِّیْ بِمَکَانِ الْاَبِ وَ الْاُمِّ