حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
اگر وہ تمہارے ساتھ جانا چاہتاہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ،اگر وہ یہیں پر مطمئن ہے ، اپنے والدکے ساتھ گھرنہیں جانا چاہتے تو محمد(ﷺ)اسے مجبور نہیں کرے گا ۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ کے ورثاء نے کہا:آپ ﷺ نے حق بات کی ہے چنانچہ حضرت زید کی مرضی پر ان کے والد حضورﷺ کے قدموں میں بیٹے کو چھوڑ کر خوشی خوشی وطن چلے گئے۔(الطبقات الکبریٰ :۳/۳۰) اس سے ملتے جلتے کئی فیصلے حضورﷺ نے اعلان نبوت کے بعد بھی کیے تھے ایک بچے کو آپﷺ نے اختیار دیاتھا کہ وہ اپنے والدین (جن کے درمیان طلاق نے جدائی ڈال دی ہے) میں سے جس کے ساتھ چاہے اس کی گود میں چلاجائے، چنانچہ بچے نے والدہ کی آغوش کا فیصلہ کیا اور حضور ﷺ نے اس فیصلے کو نافذ فرمادیا۔(السُّنن الکبریٰ ۱۵۷۵۹) دونوں واقعات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ جناب رسالت مآب ﷺ اللہ کی خصوصی راہنمائی میں جو فیصلے صادر فرماتے رہے ان کی ابتداء اپنے دورِ شباب میں ہی فرما دی تھی، آپﷺ کے جاری کردہ فرامین سے فریقین مطمئن ہوتے تھے، ایک نبی انسانی حقوق و احساسات کی جو ترجمانی کرسکتا ہے وہ کسی اور کے بس کی بات نہیں ۔قبل از اسلام نبویﷺ فیصلوں کی اساس: قرآنی آیات سے پہلے صائب فیصلوں کے پیچھے وہ فطرتِ سلیمہ کارفرما تھی، جس کی راہنمائی من جانب اللہ ہو رہی تھی، اللہ نے آپﷺ کو فہم سلیم سے نوازا تھا اور یہ امر مسلم ہے کہ کسی شخص کا انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھنا ہی کافی نہیں ، اس کی اس صلاحیت کا عوام و خواص میں تسلیم کیا جانا بھی ضروری ہے، تاکہ اس روشن قندیل سے مخلوقِ خدا کو فائدہ پہنچے۔ ظلم کے اندھیرے دور ہوں اور عدل کا اجالا عام ہو، اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے منصف کا سچا، بے لوث، عفیف و پاک دامن، عقل مند اور صائب الرائے ہوناضروری ہے اس کیساتھ مذہبی رجحان اور خدا خوفی کی شہرت جیسی صفات معاون ہو سکتی ہیں ۔ رسول رحمتﷺ کی یہ شانیں زبان زدِ عوام و خواص تھیں ، اسی لیے جب کعبۃُ اللہ کے حجر اسود کواس کی معین جگہ پر رکھنے کا مسئلہ طول پکڑگیا تو آپﷺ کے فیصلے پر رؤساء مکہ نے لبیک کہا اور سر تسلیم خم کرتے ہوئے آپﷺ کا حکم تسلیم کیا، اس واقعہ سے پہلے بھی نبی رحمتﷺ کو مکہ کے رہنے والے اپنے معاملات میں فیصل مانا کرتے تھے، درست فیصلہ کرنے والے کے دل و دماغ میں یہ صلاحیت ضروری ہے کہ وہ کسی سے متاثر نہ ہو، نہ کسی کا مجبورِ محبت ہو کہ کسی محبوب شخصیت کی بے جاحمایت کرنی پڑے اور نہ کسی سے ذاتی بغض رکھتا ہوکہ وہ اپنے ناپسندیدہ شخص پر غصے میں فرد جرم عائد کردے روایات میں ہے کہ آپﷺ نہ کسی کی بے جا حمایت کرتے تھے اور نہ مخالفت کرتے تھے بلکہ آپ کا فیصلہ کھرا اور انصاف و دیانت کے تقاضوں پر پورا اترتا تھا۔ (السیرۃ الحلبیۃ: ۱/۲۱۰)