حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
(۱)قوم کے قابلِ احترام:۔ اس نے کہا : یَابَن سَیّدِ قَوْمِہٖ اے وہ شخص کہ جو سردارِ قوم عبدالمطلب کا بیٹا اور اس کا جانشین ہے۔ (۲)حرم کے متولی:۔ اَنْتُمْ اَھْلُ الحَرَم وَجِیْرَانِہٖ تم حرم کے متولی و نگہبان ہو۔( اہل مکہ نے آپ ﷺ کی یہ تعریف خانہ ٔخداسے غیر معمولی محبت اور اس کی تعمیر و ترقی میں غیر معمولی دلچسپی کی وجہ سے کی) (۳)قیدیوں کو چھڑوانے والے تفُکّوْنَ العَانِی(تم قیدیوں کو چھڑواتے ہو) بہت بڑی نیکی اور انسانی خدمت ہے کہ کوئی شخص اپنے جرم کی پاداش میں ، قرض کی عدم ادائیگی یا کسی تعزیز میں اسیر ہو، اسے غم سے آزاد کردیاجائے ۔اسے آزادکرانے کے لیے تعلقات، سفارش اور پیسے کی ضرورت ہوتی تھی، کبھی خون بہا کے سلسلہ میں مویشیوں کا ایثار بھی کرنا پڑتا تھا، نبی رحمت ﷺ نے قبل از نبوت قیدی چھڑانے کی نیکی پر بہت زور دیا کہ اسلام میں بھی اسے بڑی نیکی کا درجہ ملنے والا تھا۔ اس لیے اعلان اسلام سے پہلے ہی آپ ﷺ نے اسے منجانب اللہ پسند فرمایا۔ آنے والے نے مزید کہا: (۴)اسیروں کو کھانا کھلانے والے وَتُطْمِعُوْنَ اْلاَسِیْرَ (تم قیدی کو کھانا کھلاتے ہو) قید میں پھنسا ہوا انسان لاچار و مجبو رہوتا ہے، اس کی مدد کرنا بہت بڑی نیکی اور فلاحی کام ہے۔ نبی رحمت ﷺ کی تجارت کی آمدن کا ایک حصہ اس ہمدردی پہ خرچ ہوتا ہے۔ (الطبقات الکبریٰ: ۳/۴۲) ان صفات کے بیان کے بعدحضور ﷺ سے مخاطب ہوکر آنے والے نے اپنا مقصود بیان کیا، نبی رحمت ﷺ نے زید رضی اللہ عنہ کو اختیار دے دیا کہ وہ چاہیں تو اپنے والد کے ساتھ جاسکتے ہیں لیکن حضرت زید رضی اللہ عنہ نے شفقتِ محمد ﷺ بن عبداللہ کے سایے میں رہنا پسند فرمایا، ان کے والد حارثہ اس لیے خوش و خرم واپس چلے گئے کہ انہوں نے دیکھا ان کا بیٹا زید رضی اللہ عنہ یہاں پر اپنے گھر سے بھی زیادہ خوش ہے۔