حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
نمازاظہارِ عجزونیاز: اللہ کے سامنے عجز و نیاز کے اظہار کے لیے قیام،رکوع ،سجود پرمشتمل طریقِ عبادت کو نماز کہا جاتا ہے یہ بھی اُمم سابقہ کی حسنات میں سے ہے، آپﷺ نے فرمایا: رسولوں کی عادات طیبہ میں سے ایک یہ بھی باقی ہے کہ وہ نماز پڑھتے وقت اپنے داھنے ہاتھ کو بائیں پر رکھ لیا کرتے تھے۔ (التلخیص الحبیر: ۵۴۸ حدیث نمبر۳۳۰) اور یہ کہ معراج میں آپﷺ نے سب نبیوں کو نماز پڑھائی، اس پر بھی اتفاق ہے واقعہ معراج کے دوران نمازیں فرض ہوئیں ۔ اور یہ نماز نفل تھی۔ (سیرۃ المصطفےﷺ ۱/۳۱۶) اس سے معلوم ہوا کہ نماز کی کوئی شکل ضرور تھی، جبکہ ہر مخلوق کے متعلق ارشاد الٰہی ہے کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلٰوتَہُ وَتسْبِیْحَہٗ (النور: ۴۱) (ہر قسم کی مخلوق کو) اپنی نماز اور تسبیح کا طریقہ معلوم ہے اور یہ کہ آپﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک (دل کی راحت اور خوشی) نماز میں فرمائی گئی۔(سنن النسائی: ۳۹۴۰) حضرت ابراہیم علیہ السلام کی امت کو نماز کا حکم ہوا، چنانچہ روایت ہے کہ خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد حضرت ابراہیم واسمٰعیل علیہما السلام دونوں نے نماز ظہر ، عصر، مغرب اور عشاء کے اوقات میں نمازیں ادا کیں ، امام شافعی ؒفرماتے ہیں کہ یہ نمازیں امت محمدیہﷺ کی طرح فرض نہ تھیں ۔(السیرۃ الحلبیۃ ۱/۲۳۳) اور ظہور اسلام کے چند دن بعد حضورﷺ کو نماز پڑھتے دیکھاگیا یہ نفل نماز ہی ہوسکتی ہے۔ حضرت عفیف کندی رضی اللہ عنہ نے اس وقت حضوراکرمﷺکو نماز پڑھتے دیکھا، جب ابھی ان کے خیال میں اسلام صرف حضورﷺ کے گھر تک محدود تھا، ابھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے تھے، حضرت عفیف رضی اللہ عنہ عطار تھے ، حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے دوست تھے، موسم حج میں اپنے کاروبار کے لئے مکہ آئے تھے ایک دن وہ اپنے دوست کے ساتھ منیٰ کے مقام پر تھے، انہوں نے دیکھا کہ ایک مستعد شخص آیا، وضو کیا اور بہت اچھا وضو کیا اور نماز پڑھنے کھڑا ہوگیا۔ پھر ایک عورت نکلی اس نے بھی وضو کیا اور نماز پڑھنی شروع کردی، پھر میں نے دیکھا کہ ان کے ساتھ ایک لڑکا آکر ان کے پہلو میں نماز کے لیے کھڑا ہوگیا، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے دوست سے اس عجیب و غریب منظر کے بارے میں پوچھنا شروع کیا اور کہا: اے عباس رضی اللہ عنہ ! ارے یہ کیا دین ہے؟ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ میرے بھتیجے محمد بن عبداللہ کا دین ہے۔