حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
میرا بیٹا، میرا وارث: حضرت زید رضی اللہ عنہ کا جواب سن کر سرورِدو عالمﷺ اس قدر مسرور ہوئے کہ آپﷺ نے اسی وقت انہیں آزاد کر دیا۔ پھر ان کا ہاتھ پکڑ کر خانہ کعبہ میں تشریف لے گئے اور قریش کے مجمع عام کے سامنے اعلان فرمایا: لوگو! گواہ رہنا کہ زید آج سے میرا فرزند ہے، میں اس کا وارث ہوں اور یہ میرا وارث ہو گا۔ حارثہ، کعب اور جبلہ نے حضورﷺ کی یہ شفقت دیکھی تو فرطِ مسرت سے بیخود ہو گئے۔ آپﷺ کی دریا دلی اور کریم النفسی کا شکریہ ادا کیا اور خوش و خرم اپنے وطن کو واپس چلے گئے۔ (الطبقات الکبری: ۳/۴۲، الوافی بالوفیات: ۱۵/۱۸) ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضورﷺ حضرت زید رضی اللہ عنہ کو بہت پہلے اپنا متبنیٰ بنا چکے تھے۔جب زید رضی اللہ عنہ کے والد اور چچا مکہ آئے تو حضورﷺ نے زید رضی اللہ عنہ کو فرزند بنانے کے اعلان کی محض تجدید فرمائی۔ اس واقعہ کے بعد لوگ حضرت زید رضی اللہ عنہ کو زید بن محمدﷺ کہنے لگے۔ (معجم الصحابۃ: ۲/۴۳۶)غلامی سے زید بن محمد ﷺتک:اس واقعہ میں کئی اسباق ہیں : ۱۔ حضورﷺ کے پاس زید رضی اللہ عنہ تب پہنچے جبکہ ابھی وحی الٰہی کا نزول شروع نہیں ہوا تھا اور وہ سب سے پہلے قبول اسلام کی سعادت حاصل کرنے والوں میں ہیں ۔ تطبیق روایات کے لیے یہ بھی لکھ دیا جاتا ہے کہ غلاموں میں سب سے پہلے حضرت زید رضی اللہ عنہ مسلمان ہوئے۔ قبول اسلام سے پہلے ہی ان کو حضورﷺ کی غیر معمولی محبت کی وجہ سے لوگوں نے زید بن محمد کہنا شروع کر دیا تھا، اسلام آیا تو حکم ہوا: {اُدْعُوْہُمْ لِاٰبَآہِمْ} (الاحزاب: ۳)ترجمہ:ان کو باپوں کی نسبت سے پکارا کرو۔ اس حکم الٰہی پر عمل کی ابتدا بھی حضورﷺ کے گھر سے ہوئی اور زید رضی اللہ عنہ کو زید بن حارثہ ہی کہا جانے لگا۔ (الاستیعاب: ۲/۵۴۵) ۲۔ محبوبِ رسولﷺ: حضورﷺکو ان سے اس قدر محبت تھی کہ اہلِ مکہ ان کو حبِّ رسول اللہ (رسولِ خدا کے محبوب) کے لقب سے یاد کرتے تھے۔ (اسد الغابۃ: ۲/۱۲۹)