حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو جوانی میں ان کی علمی و عملی پختگی ، اصابت رائے اور نیکی کی وجہ سے فَتَی الْکُھُوْل(نوجوان بزرگ) لقب دیا تھا (الاستیعاب:۳/۹۳۵) اہلِ مکہ نے حضرت محمد کریم ﷺ کو عظیم انسان تسلیم کیا، آپﷺ کا وجود مقدس اس سرزمین پر ان تمام خوبیوں کا جامع تھا، جو سب لائق ترین انسانوں میں ہوسکتی ہیں ، اس لیے مشکل حالات میں وہ حضور ﷺ سے دعائیں کرواتے تھے۔(للبیہقی۱/۸۵) حضرت محمدﷺ کے ہر قول میں صداقتِ رائے کا رنگ نمایاں نظرآتا، مشورے کی بات ہوتی تو آپ ﷺ دور بینی اور حق پسندی کا بلند مینار ثابت ہوتے، اہل شہر میں معروف تھا کہ آپﷺ کو قدرت نے حسن فراست، پختگی فکر اور وسیلہ و مقصد کی درستگی کا وافرحصہ عطا کیا تھا، کبھی دیکھا جاتا کہ آپ دیر تک خاموش بیٹھے ہوئے مسلسل غورو فکر کے ساتھ تلاش حق میں متفکر ہیں ۔ آپ ﷺ نے لوگوں کے صحیفہ حیات کا مطالعہ خداداد عقل شاداب کے ذریعے کیا، دیکھا کہ ان کا کونسا عمل فطرتِ انسانی، دین ابراہیمی اور حنیفیت کے مطابق ہے اور انہوں نے کہاں کہاں ٹھوکریں کھائیں ہیں ؟آپ ﷺنے ان کے اچھے کاموں میں مدد فرمائی اور غیرفطری رسوم و رواج سے پرہیز کرکے نفرت کا اظہار کیا۔ بالآخرآپﷺ کی گوشہ نشینیاں ، مہینوں پہ محیط طویل مناجاتیں اور خلوت کے نالے کام آئے اور چالیس سال بعد اللہ کے حکم سے لوگوں کو اسی راہ کی طرف بلانا شروع کیا، جس پر آپ خود گامزن تھے۔ حضرت محمدﷺ کے اس طرزِ عمل میں اُمّت کے لیے ایک بڑاسبق ہے کہ وہ دین کی دعوت کو لے کر چلنے سے پہلے رستہ ہموار کریں ،اللہ کی طرف بلانے کاکام ایسا نہیں ہے کہ جہاں اور جس وقت چاہیں کردیاجائے۔ اپنی دعوت کومؤثر کرنے کے لیے علم،حلم، خدمتِ خلق اورجاں پرسوز کی ضرورت ہوتی ہے،اسے شروع کرنے سے پہلے اسوئہ حبیبﷺ کے اس دور کا بار بار مطالعہ بے حدضروری ہے جس میں سیدنامحمد انورواجمل ﷺ نے اپنے اخلاقِ عالیہ کے ذریعے ان افراد کے دلوں کو ہاتھ میں لیا، جن کو صفا پہاڑی پہ کھڑے ہو کر دارین کی کامرانی کاسبق دیناتھا۔خلاصۂ کلام: سیّد دو عالم ﷺ اہل حجاز کی اصطلاح میں ان سترہ خوبیوں سے بھی متصف تھے جن کی بناء پر وہ کسی معزز علاقہ شخصیت کو ’’اَلْاَمِیْن‘‘ لقب دیتے تھے اور وہ ان قرآنی صفات پر بھی پورا اترتے تھے جو ایک امین کے لیے ارشاد ہوئی ہیں ۔ کتاب اللہ میں جبریل کے لیے تین صلاحیتوں کا ذکر ہے۔ (۱) رَسُوْلِ کَرِیْم (باعزت رسول) (۲) مَکِیْنٌ(بڑے رتبے والے) (۳) مُطَاعٍ (اللہ کے ہاں حکم کا مانا جانا۔