حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
انسانی ہمدردی: ابھی آپﷺ جس دین کی دعوت دینے والے تھے ، اس کاایک بڑا حصہ انسانیت پروری کی تعلیم دیتا ہے، اس لیے حضور ﷺ نے اپنے کردار کے ذریعے اس کی بنیاد رکھ دی ۔لین دین کے معاملات میں راست بازی، نرم و شیریں مقالی، وعدہ وفائی اور حق دار کے حق دلوانے کی کوششیں وہی کر سکتا ہے جس میں انسانوں کے ساتھ سچی خیر خواہی ہو۔ حضرت محمد ﷺ میں یہ صفات بدرجہ کامل تھیں ۔ (السیرۃ لابن کثیر : ۱/۲۴۹) سیدنا محمد کریم ﷺ کی عمر مبارک آٹھ دس سال کے لگ بھگ تھی۔ آپﷺ کے وجود مسعود کی برکات کو جناب ابو طالب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، ان کے سب بچے حضورﷺ کی برکت سے سیر ہوتے اور ایک دن آپﷺ کے توسط سے دعا مانگی گئی تو مکہ کی سرزمین پہ بارش کا نزول ہوا، تو بزرگ ترین ہستی، جہاندیدہ اور ذی شعور چچا نے کہا: میر ایہ مبارک بھتیجا یتیموں کا ملجا و ماوٰی اور بیوائوں کی امیدوں کا مرکز ہے۔ (عیون الاثر۱/۵۰، الزّرقانی۔ ج ا ص ۳۵۷)توکّل واستغناء : توکل:اللہ کی ذات پر بھروسے کا عمومی مفہوم ہے ، اس کا ایک درجہ یہ ہے کہ ضروری اسباب کو بھی ترک کردیا جائے، شریعت ِمحمّدیہ ﷺمیں اس توکلّ کی اجازت ضرور ہے، نبی اکرم ﷺنے بعض اوقات اس کواختیا ر بھی فرمایا ، لیکن آپ ﷺ کی عادت یہ تھی کہ توکل کی وہ قسم زیادہ متعارف ہو جو عام مسلمان بھی کرسکے، چنانچہ قبل از اسلام جب حضرت محمّدﷺ کو تجارت کی پیش کش ہوئی تو آپﷺ نے فرمایا: یہ رزق ہے، اللہ کی طرف سے بھیجا گیا ہے۔ (شرح الزّرقانی: ۱/۳۷۰) اور جب آپﷺ غارِ حراء میں یادِ الٰہی کے لیے تشریف لے جاتے تو اس وقت بھی کھانا آپﷺکے ساتھ ہوتا تھا تاکہ ہرانسان رہبانیت اور توکّل میں فرق کر سکے اور یہ کہ کھانے پینے کا انتظام رکھنا تو کّل کے منافی نہیں ہے۔ بلکہ رزق خداوندی کے حصول اور رحمتِ الٰہی کو اپنی طرف متوجہّ کرنے کے لیے اللہ کے سامنے اپنے فقرو فاقہ کا اظہار عین عبادت ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب مدین پہنچ کر بھوک لاحق ہوئی تو بارگاہِ خداوندی میں اپنی ضرورتِ قیام و طعام کا یوں اظہار کیا:رَبِّ اِنّیْ لِمَا اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ۔ (قصص: ۲۴) ترجمہ:اے میرے پروردگار! آپ جو خیر بھی نازل فرمائیں میں اس کا محتاج ہوں ۔