حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
حضرت محمدﷺ ہی اللہ کے نبی ہیں اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ ذات نبویﷺکا ایسا یقین انہوں نے کس بناء پر کیا کہ وہ آپ کو اپنی اولاد کی طرح پہچاننے لگے جبکہ ابھی حضرت محمدﷺ نے خود بھی دعویٰ نبوت نہیں فرمایا تھا؟اس کا جواب یہ ہے کہ وہ بچپن سے ہی حضور کو دیکھ کر پہچاننے لگے اور لوگوں کو بتانے لگے تھے کہ ہماری کتابوں کے مطابق اور مشاہدہ کی رو سے مکہ کے یہ درّ یتیم ہی آخری نبی ہیں ۔ (فتح الباری :۲/۵۸۳) گویاہزاروں سالوں سے جو خبران کے معبدخانوں میں گونج رہی تھی اس خبرقدیم کاعلم جدید (عین الیقین)کی صورت میں نظر آگیاتھا ۔ اس کے بعد جس گہرائی سے اس قوم نے طفولیت ِنبوی وشبابِ رسول ﷺکا مطالعہ کیا اس قدر اہل مکہ بھی نہیں پہچانتے تھے اسی لیے قرآن کریم کی مذکورہ آیت یہودیوں کے بارے میں اتری مشرکین مکہ کے بارے میں نازل نہیں ہوئی۔حالانکہ آپ کا بچپن اورجوانی مکہ میں گزرے تھے۔ سر زمین مکہ میں یہودیوں کا وجود برائے نام تھا، تاہم اس اَلبَلَدُ الْاَمِیْن کے مرکزی شہر ہونے کی بناء پر یہودیوں کا تجارت کے لیے یہاں آنا جانا رہتا تھا۔ سیر الصحابہ کرام جلد ششم، بارہویں حصہ کے مقدمہ میں مولانا مجیب اللہ ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہودیوں میں صنعت وحرفت کے ساتھ تجارت کا رواج عام تھا۔ اور جن بازاروں میں رسول مکرم علیہ السلام تجارت کے لیے تشریف لے جاتے ،ان میں اہل کتاب کی آمدو رفت رہتی تھی اس لیے جس طرح وہ حضرت محمدﷺ کوبچپن سے جانتے تھے ایسے ہی آپ کی جوانی کے مشاہدات بھی انہوں نے کیے، جن کی بناء پر یہ کہنا بلا مبالغہ نہ ہوگا کہ اہل کتاب کی وساطت سے ان ایام کی علمی دنیا میں آپﷺکی ذاتِ بابرکات کا تعارف ہو چکا تھا، ان کے مدارس، خانقاہوں اور مجالس میں رسول رحمتﷺ کا تذکرہ یوم پیدائش سے ہی شروع ہوچکاتھا۔نبوت بنی اسرائیل سے جاچکی: یہ ان دنوں کی بات ہے جب سید دو عالمﷺ اس دنیا میں تشریف لائے، ان ایام میں مکہ مکرمہ میں ایک یہودی تاجر آیا ہوا تھا، اسے حضرت محمدﷺ کی پیدائش کی خبر ملی، تو وہ زیارت کے لیے عبدالمطلب کے پاس گیا، حضورﷺ کی زیارت کی اور اس نے آپ کے دونوں مونڈھوں کے درمیان مہر نبوت کو دیکھا تو یقین ہوگیا کہ اس کا اندازہ درست تھا۔ علماء یہود سے اس نے نبی آخر الزمانﷺ کی آمد کی خبرکا زمانہ اورجو حالات سنے تھے وہ اس کے سامنے آچکے تھے ۔ آمنہ کے جگر گوشہ کو وہ دیکھتے ہی وہ بے ہوش ہوگیا، اسے افاقہ ہوا تو وہ کہہ رہا تھا :’’نبوت بنی اسرائیل سے رخصت ہوگئی ۔اے قریشیو! یہ نومولود تم پرجب حملہ آور ہوگا تو اس کے حملے کی خبر مشرق مغرب میں پھیل جائے گی (اس کا اشارہ فتح مکہ کی طرف تھا) حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے فرمایا: اس روایت کی سند حسن ہے اور اس واقعہ کے نظائر وشواہد کثیر ہیں ۔ (فتح الباری: ۶/۵۸۳)