حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
اگر آپﷺ نبی ہوئے تو…: سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ایک دن آپﷺ سے گذارش کی: مجھے امید ہے، بہت جلد اللہ تعالیٰ آپﷺ کو منصب نبوت پر فائز کرنے والے ہیں اگر آپﷺ کو وہ مقام مل جائے جس کی امید ہے تو خدارا میرے لیے دعا ضرور کرنا اور میرا حق بھول نہ جانا۔آپﷺ مسکرائے اور فرمایا: خدا کی قسم! اگر وہ نبی میں ہی ہوں تو میں تمہیں کبھی فراموش نہ کروں گا، اگر وہ میں نہیں ہوں تو تم نے جس امید پر یہ احسانات کیے ہیں انہیں پروردگار عالم دیکھ رہا ہے تمہاری قربانیوں کو ضائع نہ کرے گا۔ (السیرۃ الحلبیہ: ۱/ ۲۰۳) بہن بھائیوں سے پیار: خاندانی نظام میں مضبوطی کی اساس یہ ہے کہ خاندان کا ہر رکن بڑی عمر والوں کی عزت کرے اور اپنے کم عمروں پہ شفقت کرے، اسی وجہ سے اچھے گھرانوں میں بڑے بھائی کو باپ کا درجہ دیا جاتا ہے اوربڑے بھائی بھی چھوٹوں پر شفقت و محبت کے وہی انداز پیش کرتے ہیں جو ایک والد کے بچوں کے ساتھ ہوتے ہیں ، رحمت عالمﷺ جب جوانی میں قدم رکھ رہے تھے اس دور میں آپ کے چچا جناب ابو طالب اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے کم عمر بچے محمد کریمﷺ سے سچی محبت رکھتے تھے، حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کو توحضورﷺنے اپنی کفالت میں ہی لے لیا تھا حتی کہ حضرت محمدﷺ نے ان کی شادی بھی کی، رسول اکرمﷺ کی سیرت کا یہ پہلو بھی کتنا سبق آموز ہے کہ رسول انورﷺ ان بچوں سے اور یہ بچے آپﷺ سے حقیقی بھائیوں کا سا سلوک کرتے تھے۔ چشم تصور سے ایک منظر دیکھیے، چچا کے گھر میں اللہ کے رسولﷺ بیٹھے ہیں ، سامنے نظر آئے چند بچے، عبداللہ رضی اللہ عنہ ، عبیداللہ رضی اللہ عنہ اور قثم رضی اللہ عنہ کو بلایا ،مسکرائے اور فرمایا: تم میں سے جو دوڑ کر مجھ کو سب سے پہلے آ ملے گا میں اس کو فلاں چیز دوں گا، تینوں بھائی دوڑ کر حضورﷺکی طرف دوڑتے ہیں ، کوئی سینہ سے چمٹتا ہے تو کوئی پشت مبارک پر چڑھ جاتا ہے اور آپﷺ سب کو سینے سے لگا رہے ہیں اور خوب پیار کر رہے ہیں ۔ (الاصابہ: ۴/ ۳۳۱)چچا ابو طالب کے بچوں کے ساتھ: جن چچیرے بہن بھائیوں کے درمیان آپ جوان ہوئے، وہ سب آپﷺ سے قابلِ رشک عزیز داری رکھتے تھے۔ جناب ابو طالب کے سب بچے حضرت علی، حضرت جعفر، حضرت عقیل رضی اللہ عنہم اور آپﷺ کی چچا زاد بہنیں حضرت ام ہانی، حضرت جمانہ، حضرت ام ابی طالب رضی اللہ عنہما۔ یہ سب بھی ایمان لائیں ۔ حضورﷺ کے اخلاق میں