حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
اس الجھن کے نیچے ایک بہت بڑی خیر چھپی ہوئی تھی، اس واقعہ کے بعد بہت جلد دین کی دعوت کا آغاز ہونے والا تھا،حضرت محمدﷺ کے وہ چالیس سال مکمل ہونے والے تھے، جن کے بعد آپﷺ نے نبوت کا اعلان کرنا تھا، اس لیے قوم میں آپﷺ کی صداقت، امانت اور صوابِ فہم کا ایک بار پھراقرار کروانا تھا، اس کی صورت یہ ہوئی کہ چار روز کے بعد وہ سب مسجد الحرام میں جمع ہوئے جہاں ابو امیہ بن مغیرہ بھی تھا چونکہ یہ اس مجمع میں سب سے زیادہ عمر رسیدہ شخص تھا اس لیے اس نے یہ جھگڑا ختم کرنے کے لیے مجمع سے کہا: اے گروہِ قریش! اپنے اختلاف کو دور کرنے کے لیے تم یہ کرو کہ اس مسجد کے دروازے سے اب جو بھی پہلا شخص داخل ہو اس کو تم اپنا حکم بنا لو تاکہ وہ تمہارے درمیان فیصلہ کر دے۔ یہ دروازہ باب بنی شیبہ تھا اس کو اس وقت جاہلیت کے زمانے میں باب بنی عبد شمس کہا جاتا تھا اب اس دروازے کو باب السلام کہا جاتا ہے۔ اس بارے میں ایک روایت کے الفاظ کا ترجمہ یہ ہے کہ (ابو امیہ نے قریش سے یہ کہا:) ’’جو شخص بھی اب سب سے پہلے باب الصفا سے داخل ہو اس کو اپنا حکم بنا لو۔‘‘ یہ بابُ الصفا رکنِ یمانی اور رکنِ اسود کے درمیانی حصے کے سامنے تھا۔ایک روایت ہے کہ یہ کہا گیا کہ صبح سویر ے سب سے پہلے جو شخص مسجد الحرام میں آئے وہ فیصلہ کرے۔محمداَمینٌﷺ کی آمد: غرض اس دروازے سے سب سے پہلے داخل ہونے والی شخصیت آنحضرتﷺ تھے آپﷺ کے بعد قریش کے لوگ آئے، اہل مکہ نے جیسے ہی آپ کو دیکھا وہ فوراً پکار اٹھے: ((ہٰذَا اَمِیْنٌ رَضِیْنَا ہٰذَا مُحَمَّدٌ)) ’’یہ امین ہیں … ہم ان پر راضی ہیں ۔ یہ محمدﷺ ہیں !‘‘ (ہر آدمی ان کی تعریف کرتا ہے)۔ (عیون الاثر: ۱/۶۶)اورحضور ﷺ مسکرانے لگے۔ اب وہ تکوینی مقصد پورا ہو گیا جس کے لیے بیت اللہ کی تعمیر ایک دفعہ رک گئی تھی، ہر پیر جوان سیدنامحمدﷺ کی سچائی کا اقرار کر رہا تھا، یہ اقرار انہوں نے محمدﷺ کی شخصت کے مضبوط کردار کی وجہ سے کیا، آپﷺ کے بے داغ ماضی وحال کی وجہ سے قریش کے لوگ اپنے جھگڑوں میں رسول اللہﷺ کو ہی اپنا ثالث بنایا کرتے تھے۔ کیونکہ آپﷺ نہ کسی کی بے جا حمایت کرتے تھے اور نہ مخالفت کرتے تھے۔ (بلکہ ہمیشہ آپﷺ کا فیصلہ کھرا اور انصاف و دیانت کے عین مطابق ہوا کرتا تھا۔ (السیرۃ الحلبیۃ: ۱/۲۱۰)