حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
بکریاں پالنے میں حکمتیں جس طرح آپﷺ نے حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کے یہاں بچپن میں اپنے رضاعی بھائیوں کے ساتھ بکریاں چرائیں ، اسی طرح جوانی میں اپنی ذاتی ،خاندانی اور دیگرلوگوں کی بکریوں کی پرورش کی، آپﷺکو بکریاں والد کے ترکہ میں ملیں جو سینکڑوں تھیں ( پوری بحث دیکھیے:روشن ستارہ (حضور ﷺ کابچپن) میں ۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہماسے مروی ہے کہ مَقَام َالظَّہْرَان میں ہم نبی کریمﷺ کے ساتھ تھے کہ ہم وہاں پیلو کے پھل چننے لگے، آپﷺ نے فرمایا : سیاہ دیکھ کر چنو وہ زیادہ خوش ذائقہ اور لذیذ ہوتے ہیں ۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ بکریاں چرایا کرتے تھے (کہ جس سے یہ معلوم ہوا؟) آپﷺ نے فرمایا: ہاں کوئی نبی ایسا نہیں آیا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں ۔ (بخاری کتاب الاطعمہ) ایک دن آپﷺ نے دیکھا کہ ا ونٹوں کو پالنے والے (بکریاں چرانیو الوں کو گھٹیا سمجھ کر فخر کر رہے تھے، آپﷺ نے فرمایا: (جب حضرت) موسیٰ و داود علیہما السلام (جیسے پیغمبر بھی) بکریاں چرا کر لیتے تھے اور میں نے بھی یہ کام کر لیا (تو اس میں کیا قباحت ہے؟) ایک دن ارشاد فرمایا: میں نے چند قیراط مزدوری پر مکہ والوں کی( اور میں نے اس کے ساتھ)اپنے گھر والوں (جناب ابو طالب) کی بکریاں مقامِ اجْیَاد میں پا لی تھیں ۔ (سبل الہدیٰ والرشاد: ۲/ ۱۵۶،۷/۴۱۱) نبی کا ہر قول وفعل حجت اور حکمتوں پر مبنی ہوتا ہے۔ اس سنتِ حبیبﷺمیں بھی لاتعداد حکمتیں پوشیدہ ہیں مثلاً : اس سے یہ ثابت ہواہے کہ ابھی رسالت کا اعلان ہوا نہیں تھاتاہم حضورﷺ نے اپنے عمل سے آجر اور مزدور کے لئے مسائل ترتیب دیے(۱) اجرت پر کوئی کام کرنا اور کروانا جائز ہے۔ (۲)مزدوری معیوب نہیں ، قابلِ فخر و باعثِ عزت ہے۔ (۳) ولایت و قرب خداوندی کامقام کسی چرواہے کو بھی نصیب ہو سکتا ہے اس کے لیے مال دار اور گدی نشینی ضروری نہیں ، گلہ بانی کے اس واقعہ سے کچھ بنیادی اصول بھی سامنے آئے۔اجرت ومزدوری کی نظام کی اہمیت: یہ کہ مزدوری طے کرنا اور اس کا حق ادا کرنا یعنی طے شدہ کام مکمل کرنا، ایسی انسانی صفت ہے کہ اس کا وجود کسی معاشرے میں ہو، سب انسان دوسرے انسانوں کی تکلیف سے بچے رہتے ہیں ، سب کے کاروباروں میں سکون آجاتا ہے، کوئی کسی سے نالاں نہیں ہوتا اور اس قسم کا عملہ مل جائے تو ایک باصلاحیت آدمی بیک وقت کئی اہم اور بڑی ذمہ داریوں سے عہدہ برآہو سکتا ہے، اس کے برخلاف اگر لوگ معاوضے کا صحیح حق ادا نہیں کر سکتے، تو اس معاشرے میں سکون کی جگہ پریشانی، خوشی کی جگہ تفکرات جنم لیتے ہیں اور ایک باصلاحیت انسان ایک اہم کام بھی کامل طور پر نہیں کر پاتا اور آجر ومزدور دونوں