حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ بے شک! اللہ ہر کام کر سکتا ہے۔نبی اکرم ﷺاورملی فیصلے کے نتائج: ۱۔ محمد عربی علیہ السلام کی قوت فیصلہ اور اصابت رائے کی تشہیر ہوئی، اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ظہورِ نبوت سے پہلے آپﷺ کی نیکی اور علمی قابلیت نے قلوب انسانی کو حضرت محمدﷺ کے عنقریب ظاہر ہونے والے کمالات کے نظارے کے لیے تیار کر لیا۔ ۲۔ ایک بار پھر لوگوں کی کثیر تعداد نے آپﷺ کو سچا اور امانت دار تسلیم کر لیا۔ ۳۔ جو سعید روحیں کسی نبی کی منتظر تھیں ان کی نظریں آپﷺ پر جم گئیں ۔ ۴۔ جس طرح اعلانِ اسلام کے بعد حضرت محمدﷺ کی ہر ادا حکمتوں سے مامور ہے۔ اسی طرح قبل از ظہورِنبوت بھی حضرت محمدﷺ کا ہر کام اعلیٰ اور سبق آموز تھا، حجر اسود کے اس فیصلے میں بھی اسوۂ حسنہ ظاہر ہوا کہ آپﷺ نے ممکنہ لڑائی مٹا دی تاریخِ کاہر طالب علم جانتاہے کہ معمولی تنازعات و اختلافات میں اہل مکہ تلواریں نکال لیتے تھے اور پھر ان کی نیام میں واپسی مشکل ہو جاتی تھی، یہ تو بیت اللہ کا مسئلہ تھا اس نازک موڑ پر اگر فیصلہ محمدی ﷺکی مبارک تجویز نہ ہوتی تو لڑائیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ چل نکلتا، جس سے حرم بھی محفوظ نہ رہتا، ابھی حربِ فجار کی چار سالہ جنگ کے زخم مندمل نہیں ہوئے تھے اور ایک بار وہ پھر دست و گریبان ہونے والے تھے کہ آپﷺکی صائب رائے نے جانوں کے تحفظ اور امن کی بقا کا سامان پیدا کر دیا۔ ۵۔ یہ خاص توفیق الٰہی اوربعثت سے پہلے ایسی علامت کا ظہور تھا، جس کے پس منظر میں ان نفوسِ قدسیہ کو ایک پیشگی دلیل مل گئی تھی۔ جنہوں نے پانچ سال بعد اسلام قبول کرنا تھا، وہ یہ کہ حضرت محمدﷺ ہی اپنے ماننے والوں کو کسی بڑی آفت اور آپس کے افتراق سے بچا سکتے ہیں ۔ ۶۔ آپﷺ کی برکات عرب والے آپﷺ کے بچپنے سے ہی دیکھتے چلے آ رہے تھے، اب وہ ایک اور سعادت کا منظر دیکھ رہے تھے یہ ایسی خوش بختی تھی، جس کی تمنا عرب کا ہر شخص کر رہا تھا کہ وہ کسی بھی قیمت پر حجر اسود کوبیت اللہ میں نصب کر کے عزت حاصل کر لے، لیکن یہ شرف آمنہ کے در یتیم کو ملا، اس کے بعد آپﷺ کے احترام میں مزید اضافہ ہو گیا۔ حتّی کہ آپﷺ ایک بزرگ شخصیت شمار ہونے لگے۔(دلائل النبوۃ :۱/۸۵)