حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
خواجہ ابو طالب کے ساتھ سیدنا محمدﷺ نے عرفات کے قریب لگنے والے بازار عکاظ کا سفر اختیار فرمایا، ایک دفعہ آپ یمنی کپڑے کی تجارت کے سلسلے میں تشریف لے گئے۔ جب قبیلہ عبدالقیس کی آپﷺ کی خدمت میں حاضری ہوئی، تو آپﷺ نے ان کے سامنے بحرین کے مختلف مقامات کا تذکرہ فرمایا، تو انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ! آپ تو ہمارے علاقے کو جانتے ہیں ۔ آپﷺ نے مسکراکرفرمایا: میں نے تمہارا علاقہ خوب دیکھ رکھا ہے۔ (سیرۃ النبی بحوالہ مسند احمد) حضرت نواس ؓ بن سمعان کو یمن روانہ کیا تاکہ آپﷺ کی تجارت کریں ۔( معرفۃ الصحابہؓ ۵/۳۷۰۵) مارگولوس وغیرہ مؤرخین یورپ نے آپﷺ کے اسفار کا سلسلہ ڈیڈ سی (بحرمیت) تک وسیع کر دیا ہے تاکہ وہ یہ ثابت کر سکیں کہ قرآن کریم میں بحری جہازوں کی رفتار اور طوفان وغیرہ کا جو ذکر ہے۔ یہ تذکرہ محمدﷺ کا تصنیف کردہ ذاتی تجربہ ہے، وحی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ (نعوذ باللہ) علامہ شبلی نعمانی ؒنے اپنی کتاب سیرت ُالنبیﷺمیں ابن سید الناسؒ کے حوالے سے ’’جعاشہ‘‘ کے ایک سفر کا ذکر بھی کیا ہے، اور مارگولوس وغیرہ کے جوابات بھی دیے ہیں ۔ اسی بازار میں حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کو ان کی پھوپھی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے بھیجا کہ وہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکے لیے لباس کا کپڑا خرید کر لائیں چنانچہ انہوں نے نبی اکرمﷺ سے تہامہ کے کپڑے خریدے، یہ شادی سے پہلے کا واقعہ ہے۔ حضرت میسرہ رضی اللہ عنہ بھی اس سفر میں حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ (السیرۃ الحلبیۃ: ۱/ ۱۹۹)رسولِ رحمتﷺ کے اصولِ تجارت نبی اکرمﷺ نے تجارت کے جو اصول بعد از نبوت متعین فرمائے۔ ان پر آپﷺﷺ قبل از نبوت بھی عامل تھے۔ سچائی، امانت، دیانت کا اہتمام اور ملاوٹ، دھوکہ دہی سے پرہیز تو عام معاملات میں رکھتے تھے، تجارت سے متعلق جو اہم باتیں معلوم ہوئی ہیں ، ان کا مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ نبی محترمﷺ وہی تاجر تھے جس کے متعلق آپ نے خودفرمایا: اَلتَّاجِرُ الصُّدُّوقُ الْاَمِینُ مَعَ النَّبِیِّیِْن وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَاء وَالصَّالِحِیْن۔ (کنز العمال: حدیث نمبر ۹۲۱۷) ترجمہ:جو تاجر سچا ہواورامانت دار ہو وہ نبیوں ، صدیقوں اور شہداء وصالحین کے ساتھ ہوگا۔