حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
الغرض:خیر کی ہر کرن انہی کے جسم اطہر سے پھوٹتی ہے، ان احوال میں صالح طبیعتوں اور سلیم الفطرت انسانوں کے دلوں نے گواہی دی: ہو نہ ہو یہی ہیں آخری رہبر انسانیت اور کوئی نہیں ۔پہاڑوں اور آسمانوں کی پکار: حضرت محمدﷺپہاڑوں کے پاس سے گزرتے تو سنا جاتا کہ ان کے اندر سے ایک مترنم آواز آرہی ہے اور وہ محمدﷺ کو سلام کر رہے ہیں ۔( السیرۃ الحلبیہ: ۱/ ۳۲۱) اور یہ واقعہ تو شادی سے پہلے کا ہے کہ الصَّادِقُ وَالْاَمِیْن کا خطاب ملنے کے فورًا بعد ایک شخص غیب سے اس وقت ظاہر ہوا جب اہل مکہ عید پڑھنے کے لیے جمع تھے، اس نے اعلان کیا: عن قریب تمہارے شہر میں ایک نبی ظاہر ہوں گے جن کا نام احمد ہوگا۔ (الزرقانی: ۱/ ۸۶)یہ آواز آسمانوں سے آرہی تھی ، دنیا کے آبادکاروں کو تیار کیاجارہاتھا کہ اللہ کے کرم کی ہوا چلنے والی ہے، یہ ہوا ،یہ فضا ،یہ بادل یہ گھٹا، سب اسی کے استقبال میں مجسمۂ انتظار ہیں ۔ اورایساتوکئی بار ہوا کہ نورمجسم سید دوعالم حضرت محمدﷺ کہیں تشریف لے جارہے ہیں ، آپﷺ کے دائیں بائیں کسی درخت سے صدابلند ہوتی ہے اور کبھی پتھر سے ایک آواز آتی ہے۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُوْل َاللّٰہ سید الکائنات علیہ التحیۃ والصلوات پلٹ کر دیکھتے تو کوئی نظر نہ آتا، وہاں شجر و حجر ہی موجود ہوتے ، یہ ان دنوں کی باتیں ہیں جب ان کو نبوت ملنے ہی والی تھی اور اللہ نے آپﷺ کے (مقام) عزت کے ظہور کا فیصلہ فرمالیا تھا۔(دلائل النبوّۃ ۲/۱۴۷)مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّور(جہالت کے) اندھیروں سے (ایمان کی)روشنی کی طرف اللہ تعالیٰ جب رات کے گھنے اندھیروں کی سیاہ چادر کو لپیٹنا چاہتے ہیں تو سورج کو حکم دیتے ہیں نکلو اور روشنی پھیلائو، دنیا پر سفید چادرآنے سے پہلے پو اٹھتی ہے، افقی کناروں سے نور کی کرنیں سحر کی آمد کا اعلان کرتی ہیں آسمان کے طول و عرض پر روشنی پھیلنے سے پہلے سحر کی آمد کا آوازہ، کائنات کے ذرّے ذرّے سے سنائی دیتاہے، کلیاں مسکرا کر صبح کا استقبال کرتی ہیں ، شبنم پھولوں کا منہ دھودیتی ہے اور آنے والے دن کے لیے سنوار دیتی ہے، الغرض: آسمان و زمین ، شجر و حجر ندی ، نالے اور صحراء نغمہ کناں ہوتے ہیں کہ سحر ہونے والی ہے