حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
طور پر جانتے تھے، آپﷺ کی سچائی، دیانت، امانت اور صائب الرائے ہونے کا علم ان کو تھا، اسی لیے جب ان کو نبی علیہ السلام کے پاس فرشتے کی آمد کی اطلاع ملی تو فوراً کہہ اٹھے: ہٰذا نَبِیُّ ہٰذِہٖ الاُمَّۃِ یہ اس اُمّت کے نبی ہیں ۔ (اُسُد الغابہ: ۴/۵۷۱) صرف ایک فرشتہ کے آنے کی خبر کی وجہ سے کوئی توراۃ و انجیل کا عالم کسی کو اتنا بڑا خطاب نہیں دے سکتا، معلوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت محمد عربی علیہ السلام کی دیگر علاماتِ نبوت سے خوب واقف اور آپﷺ کی شخصیت کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کو ۔ ٭… بتوں کی عبادت سے سخت نفرت تھی ٭… علم و حکمت پر مبنی باتیں کرتے تھے اور شراب و زنا سے بے زار تھے۔ ٭… غیر اللہ کے نام پر ذبح کیے ہوئے جانوروں کا گوشت نہ کھاتے تھے۔ ٭… آسمان اور زمین کی تخلیق میں مسلسل غور و فکر کرتے۔ اور اللہ وحدہ لا شریک لہ کی تعریف میں رَطب اللسان رہتے تھے۔ (اسد الغابہ: ۳/۳۰۷، الاعلام للذرکلی: ۸/۱۱۵) ٭… مردار اور خون کے استعمال سے پرہیز کرتے تھے۔ (الاستیعاب: ۲/۶۱۵) جب حضورﷺ پر پہلی وحی نازل ہوئی ،حضرت ورقہ نے آپﷺ کے سچا ہونے کی خبردی، لیکن جب حضورﷺ نے سب لوگوں کو باقاعدہ دعوت دینے کا آغاز کیا اس وقت وہ دنیا سے جاچکے تھے،اسی طرح حضرت زید بھی مذکورہ عقائد رکھتے تھے ، اعلان نبوت سے پہلے فوت ہوگئے۔حضرت زید بن عمرو: حضرت ورقہ اور حضرت زید بن عمرو بن نوفل ایک جیسے خیالات رکھتے تھے۔ ان دونوں حضرات نے جب دیکھا کہ اہل مکہ دین ابراہیم سے بہت دور جا چکے اور انہوں نے بہت سی بدعات ایجاد کر لی ہیں تو حق کی تلاش میں کہیں دوسرے شہر میں یہودیوں سے ملے اور پھر عیسائیوں کے پاس گئے اور عیسائیت کو دین حق سمجھ کر قبول کرلیا لیکن حضرت زید اپنے اجتہاد سے دین حق پر چلتے رہے، حتیٰ کہ ان کی ملاقاتیں جب محمد عربی علیہ السلام سے ہوئیں ، آپﷺ کی عادات و اخلاق کو دیکھا تو امید لگا لی کہ آپﷺہی وہ نبی ہو سکتے ہیں جنہوں نے ساری دنیا کو پیغامِ حق پہنچانا ہے۔ (الاستیعاب: ۲/ ۶۱۵)