حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
جب آپﷺ کی عمر شریف ۳۵ سال تھی اس وقت ایک سیلاب نے مکہ کے گھروں ، کعبۃ اللہ اور مخلوق خدا کو بڑا صدمہ پہنچایا، ممکن ہے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ان دنوں کی ان خدمات کا ذکر کر رہی ہوں ۔ (السیرۃ الحلبیۃ: ۱/۲۰۴)قدرتی آفتوں میں قحط سالی، موسمی یا وبائی امراض شامل ہیں ۔(۸)مندوبینِ حرم اور مہمانوں کی خدمات: عنوان شباب میں جس طرح آپﷺ نے خدمتِ خلق میں ذوق و شوق سے حصہ لیا اس سے یہ سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہونی چاہیے کہ حضورﷺ آٹھ دس سال کی عمرسے اپنے خاندانی مناصب میں بزرگان خاندان کے ساتھ شامل ہوتے تھے، حج و عمرہ کے لیے حرم میں آنے والے زائرین کے کھانے پینے اور زم زم پیش کرنے میں آپﷺ کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ اس لیے کہ یہ اسوئہ ابراہیمی ہے۔ مہمانوں کے بارے میں آپﷺ کا نظریہ تھا کسی مسلمان کو کوئی شخص ملنے آتا ہے تو اپنی قسمت کا کھانا مسلمان دوست کے دسترخوان پہ کھا لیتا ہے، لیکن میزبان کی فراخ دلی اور خندہ پیشانی کی وجہ سے جب وہ خوش ہوتا ہے تو اللہ میزبان پہ مہربان ہو جاتے ہیں ، اس کی روزی میں برکت ہو جاتی ہے۔ مہمان کے بارے میں اہل مکہ کا یہ تصور ان کے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام سے چلا آ رہا تھا، ہمارے نبی اکرمﷺ اہل مکہ میں سب سے زیادہ مزاج ابراہیمی کی موافقت کرتے تھے، اس لیے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہانے پندرہ سالہ شواہد کے بارے میں فرمایا: آپﷺ تو مہمان نواز ہیں (بھلا آپ کے ساتھ اللہ کا معاملہ بھلائی کا کیوں نہ ہو گا؟ (بخاری حدیث نمبر ۳، الزرقانی: ۱/۱۳۸، السیرۃ الحلبیۃ، ج ۱، ص: ۱۱)(۹)فرائض کی انجام دہی: قبل از نبوت بھی حضرت محمد کریمﷺ ایک مصروف ترین زندگی گزار رہے تھے، جو قومی امور آپﷺ کے خاندان کے ذمے تھے، آپﷺ ابو طالب اور زبیر بن عبدالمطلب کے ساتھ ان میں شریک رہتے تھے اگرچہ آپﷺ تجارت کے لیے جب گئے تو بطور ملازم نہیں بلکہ مضارب تھے،آپ خود بڑے تاجرتھے، تاہم حکومتی یا شخصی ملازمین کو آپﷺ نے ایک سبق یہ دیا کہ جسکے ساتھ باہمی امور متعلق ہوں ان کا اعتماد کتنا ضروری ہے۔ مثلاً: جب آپﷺ تجارت سے فارغ ہو کر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاسے ملے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے حضرت میسرہ رضی اللہ عنہ کو بلانے کے لیے آپﷺ کو واپس بھیج دیا جو کسی وجہ سے پیچھے رہ گئے تھے، آپﷺ فوراً لوٹے اورحضرت میسرہ رضی اللہ عنہ کو بلا لائے، آپﷺ نے ایک غلام کو بلا لانے میں پس و پیش نہیں کیا۔ (السیرۃ الحلبیۃ: ۱/۱۹۶)