حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
نہیں رہی کہ وہ آپﷺ کو اپنانے میں دیر کریں ۔ چنانچہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن نے بتایا کہ میری بہن آپ کے دوست محمد (ﷺ) سے نکاح کرنا چاہتی ہیں آپ ان کے سامنے تذکرہ کریں (البدایہ والنہایہ: ۳/۴۶۷) سلسلہ جنبانی کے اس کے علاوہ بھی ذرائع کا ذکرملتا ہے۔حضرت نفیسہ رضی اللہ عنہانے بھی اس تاریخی وبابرکت نکاح میں پیغام رسانی کاکردار اداکی۔(حیاۃ الصحابہؓ:ج۳ ص ۴۵۶)شادی کے محرکات: جب حضورﷺ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے مال سے تجارت فرمائی تو حضرت میسرہ رضی اللہ عنہ جوان دنوں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے غلام تھے وہ بھی بطورِ خادم آپﷺ کے ساتھ تھے۔ ان کی زبانی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو آپﷺ کے تمام حالات ِسفر معلوم ہوئے۔ ان واقعات کو سن کر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے دل میں آپﷺ سے نکاح کا شوق پیدا ہوا چنانچہ سفرشا م سے واپسی کے دو مہینہ اور پچیس روز بعد خود حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہانے آپ ﷺکو نکاح کا پیغام دیا۔(حیاۃ الصحابہؓ۳/۴۶۵)حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے علم میں یہ بات آچکی تھی کہ حضرت محمدﷺ ہی آخری پیغمبر ہوں گے ، ادھر حضورﷺ کوبھی ان کی طہارت و منزہ اخلاق کاپتہ چل گیاتھا، چنانچہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ آپﷺ کے دوست ،حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکی بہن حضرت ہالہ رضی اللہ عنہا اور حضرت نفیسہ رضی اللہ عنہا(حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہاکی سہیلی)کے ذریعے ابتدائی امور طے پائے۔(البدایہ والنہایہ ۳/۴۶۷) حضورﷺ اپنے چچا ابو طالب اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور دیگر روسائے خاندان کی معیت میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے یہاں تشریف لائے ادھر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچااور خاندان کے بزرگ موجود تھے۔سب سے نیک اور صالح نوجوان: خواجہ ابو طالب نے خطبۂ نکاح پڑھا جس کے آخری الفاظ یہ ہیں ۔ اما بعد :محمد ﷺوہ نیک اور صالح ہیں کہ قریش میں کاکسی جوان کو بھی شرف ورفعت اور فضیلت اور عقل میں آپﷺ کے ساتھ تولا جائے تو آپﷺ ہی بھاری رہیں گے۔ مال میں اگرچہ آپﷺ کم ہیں لیکن مال ایک زائل ہونے والا سایہ ہے اور ایک عاریت ہے جو واپس کی جانے والی ہے (میرایہ بھتیجا) خدیجہ رضی اللہ عنہا بنت خویلد کے نکاح کیطرف مائل ہے۔ (روض الانف : ۱/۲۷۰)