حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
۱۔ وہ اپنے مذہب کے ساتھ وابستہ رہتے ہیں اور اس ملک کے قوانین پر نظر رکھتے ہیں جن کی روشنی میں وہ اپنی مذہبی تعلیمات کو آگے بڑھا سکیں ۔ جیسے:’’ مذہبی آزادی‘‘ اور’’ انسانی حقوق‘‘بہت سے ممالک کے قوانین ہیں ،ان سے مسلمان بھی فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ ۲۔ اس طرح حکومتوں کے ساتھ ٹکراؤ سے بچ کر لوگوں میں گھل مل جاتے اور اپنے اخلاق و کردار سے اسلام کا خوبصورت حلیہ ان کو دکھاتے ہیں ، جیسے: سچائی، صفائی معاملات اور انسانی ہمدردی۔ ۳۔ قبل از اسلام حضورﷺ کی زندگی پرغور و فکر کرنے والے مسلمان اپنے مذہب اور مخالف مذہب کے مشترکات کے فروغ میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ عقل مند مسلمان اسلامی تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے دنیا کے ہر ملک میں دینی کام کر سکتے ہیں ، حضورﷺ کی حیات طیبہ کے تین ادوار ہیں : (۱) قبل از نبوت (۲) مکی (۳) مدنی ان تنیوں کا مطالعہ اور اس سے استفادہ کرتے ہوئے ایک مسلمان اپنے اور اپنے ملک کے لیے سیرت طیبہ سے راہنمائی لے سکتا ہے، اسی لیے قرآن و سنت کے ساتھ تاریخ رسول و اسلام کا جاننا ضروری ہے۔جب آپﷺ کو صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت میسر نہ تھی اس وقت بھی آپﷺ نے بہت سے وہ کام کیے جو جماعتیں اور حکومتیں کرتی ہیں ، اگرچہ ان کا دائرہ وسیع نہ تھا تاہم آپﷺ نے کام کی شروعات کا طریقہ سکھا دیا،چند کام یہ ہیں : (۵)مقروضوں اور قیدیوں پر مال خرچ کرنا: مالی ضروریات کے لیے آپﷺ نے تجارت فرمائی اس کی آمدن کا ایک بڑا حصہ اپنے غریب و مسافر ہم وطنوں کے لیے مختص فرماتے تھے، آپﷺ غار حرا کے اعتکاف سے فارغ ہوتے تو مساکین مکہ کی دل کھول کر اعانت فرماتے تھے۔ (السیرۃ الحلبیۃ: ۱/۳۳۹) حضر ہوتا یا سفر، گھر کے کام ہوتے یا قومی و ملی خدمات، نبوت سے پہلے اور بعد، لڑکپن اور جوانی میں ،الغرض ہمارے نبی ﷺ اپنی پوری تاریخِ حیات میں ہم نشینوں ، ہم سفروں اور ہم کاروں پر کبھی بھی بوجھ نہیں بنے بلکہ آپﷺ ان کے لیے باعثِ رحمت اور ذریعۂ تعاون رہے، مکہ میں ساہو کار لوگ ضرورت مندوں کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اٹھاتے، ان کو قرض دیتے اور اس کے بدلے میں ان کو اپنا غلام بنا لیتے سود پہ سود چڑھتا رہتا اور خاندان کا خاندان مقروض ہو جاتا، حضورﷺ ایسے مظلوموں کی اعانت کے لیے اس ساہو کار سے بات کرتے، قرض ادا کرتے اور ایک خاندان کو ایک انسان کی غلامی سے نجات دلا دیتے تھے اسی لیے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہانے اور ان کے علاوہ حضرت ورقہ نے بھی گواہی دی: تَحْمِلُ الْکَلَّ۔ (بخاری حدیث نمبر ۳، الروض الانف: ۲/۲۱۳)