حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
سے دعا کروں کہ تم اسکی آواز بھی سن سکو؟ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی (نہیں اے اللہ کے رسولﷺ) بلکہ اللہ اور اس کے رسولﷺ نے جو کہا ہے، وہ سچ کہا (مجھے آواز سننے کی ضرورت نہیں ہے) (مصباح الزجاجہ، ۵۴۴) حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے اس بیان سے حضورﷺ کو خوشی ہوئی۔ نبی علیہ السلام نے جو سوال فرمایا، یہ دراصل ایک امتحان تھا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ایمان کا، اگر وہ جواب میں کہہ دیتیں : ہاں میرے بچے قاسم کی آواز مجھے جنت سے سنوادیں ، تو ایمان بالغیب میں کمزوری آجاتی اس لیے اللہ نے آپﷺ کو یہ توفیق دی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا فرمادیں :یا رسول اللہﷺ! جو آپﷺ فرما رہے ہیں یہ بھی سچ ہے اور اللہ فرماتے ہیں وہ بھی سچ ہے۔ جنت کی آواز سنے بغیر مجھے جنت کے وجود پر یقین ہے میرا سننا، دیکھنا ضروری نہیں ، ایمان کا یہ اعلیٰ مقام حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کوحاصل تھا۔بے آسرا اور یتیموں کے لیے راہنما اصول گذشتہ ابواب میں نبی اکرم ﷺ کی کامیاب و کامران زندگی ،باعزت وباوقار طرزِ اعمال کے جو تذکرے ہوئے ان میں امت کے ان افراد کے لیے بے شمار نشاناتِ منزل موجود ہیں ، جو بظاہر بے سہارا ہوں یا قابل ذکر سر پرستی سے محروم ہوں ،یہاں ان سنگہائے میل کی طرف کچھ اشارات کیے جاتے ہیں جو ایک مسلمان کے لیے کامرانی کے راستوں کی راہنمائی کرتے ہیں یہ بات تو مسلم ہے کہ آمنہ کے در یتیم حضرت محمدﷺ کی یتیمی، پہلے والد پھر والدہ اور دادا جان کا آٹھ سال کی عمر میں رخصت ہو جانا، ان ظاہری محرومیوں کے باوجود آپﷺ کی نشو و نما، تعلیم و تربیت اور عزت و وقار کے تمام تر انتظامات اللہ کی طرف سے تھے لیکن کیا آپﷺ کے اس دور کم سنی و لمحاتِ شبابیہ میں روز قیامت تک کی انسانیت کے لیے کوئی سبق نہ ہوسکا؟ اس بات کو دل تسلیم نہیں کرتا اس لیے کہ ہر نبی کی مکمل زندگی اس کی امت کے لیے لائق تقلید ہوتی ہے۔ چند معجزات و علاماتِ نبوت کے علاوہ آپﷺ کے تمام امور کو اللہ نے ظاہری اسباب کے ساتھ جوڑا ہے تاکہ آپﷺ کے امتیوں کے لیے نمونہ رہے۔ مثلاً: آپ یتیم پیدا ہوئے، ظاہری سہارے ٹوٹتے گئے، لیکن اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں سے بھر پور فائدہ اٹھا کر ایک اچھے نوجوان کی حیثیت سے اہل مکہ کی آنکھوں کا تارا بنے، ہر انسان کو اچھے اخلاق کی صلاحیت دی جاتی ہے تاہم اس سے فائدہ کم لوگ اٹھاتے ہیں ۔ ہر شخص جو بے آسرا ہو، یتیم ہو اسکے پاس اللہ کا سہارا ہے جونیک نفس لوگوں کو ملتا ہے اس لیے انسان سچ بول کر، اپنے کردارِ شرافت اور نیک نفسی سے، خاندانی بزرگوں میں غیر معمولی اعتماد حاصل کر کے، گھریلوں کاموں میں مناسب دلچسپی