حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
(الطارق:۳) ’’روشن ستارہ‘‘ سے موسوم کیا (۲)بلوغت تااعلان کانام حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجرْ (القدر:۵) ’’فجر ہونے تک‘‘ رکھا۔اَلنَّجْم بھی حضورﷺ کا صفاتی نام ہے اور اَلْفَجرْ بھی ۔(المواھب اللدنیہ: ۱/ ۴۶۷، شرح الشفاء : ۱/ ۸۹)یعنی جس شب کو اس ستارے نے طلوع ہوکر منور کیے رکھا وہ رات چالیس سال پر محیط ہے اور اس رات کے اختتام پر جب فجر طلوع ہوئی تو آفتاب نبوت چمکا اور پورے عالم کو منور کردیا۔ چالیس سال چمکنے والے اس ستارے کانام حضرت محمدﷺ ہے فجر کی اس روشنی کانام بھی محمد ﷺ ہے۔کچھ کتاب کے منفرد موضوع کے بارے میں حضور ﷺکی ولادت سے وفات تک کامکمل زمانہ اس لائق ہے کہ اس کے تذکرہ سے دلوں کو روشن کیا جائے، سینکڑوں کتابوں کے مطالعہ کے بعد مصنف اس فیصلے کی طرف راغب ہوا کہ حضور ﷺ کے عہد شباب اور دعوت دین سے پہلے کے حالات وواقعات کا لکھنا ازحد ضروری ہے کہ مورخین وسیرت نگاروں نے اردومیں خالصتاً اس منتخب موضوع پر چند صفحات سے زیادہ نہیں لکھا اس لیے اس پہ کام کرنا ضروری ہے۔ سیرت نگاری کا یہ ایک خاص انداز ہوگا جس سے امت کو فائدہ ہوگا۔سیرت کے معنٰی اور حضور ﷺ کا عہدِ شباب: لفظ اَلسِّیْرَۃ جن مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے ان کا ہر مفہوم حضور کے ان ایّام پر صادق آتا ہے یہ جو اعلانِ نبوت سے پہلے مکّہ کی وادی میں گزرے۔ (۱)’’لسان العرب ‘‘ کے مطابق سیرۃ حُسْنُ السِّیْرَۃ (اچھے چال چلن) کو کہتے ہیں (لسَانُ العرب ج ۴ ص ۳۸۹ احیاء ُ التراث العربی سیرۃ(۱۹۸۸) سرزمین مکّہ، شام اوریمن نے ایسی عادات و طرز زندگی کی حامل شخصیت کے قدم آج تک نہ چومے تھے جس کی خوبصورت ادائیں سیدنا محمد کریم ﷺ جیسی ہوں ۔ (۲)سِیْرَۃ کا لفظ سوانح حیات پر بھی بولا جاتا ہے۔ (جامع اللغات ج ۳ص ۴۵۴) سوانح کے موضوع پر لکھنے والے جب کسی کا سوانحی خاکہ مرتب کرتے ہیں تو لڑکپن اور جوانی کو نظر انداز نہیں کرتے ایسا ہو جائے تو موضوع ادھورا جانا جاتا ہے اس لیے بھی پیغمبر آخر الزماں ﷺ کی سیرۃ کا یہ پہلو ہر مومن کے لیے ایمان افروز ہے کہ وہ حضوﷺ کے عہدِ شباب کا مطالعہ کرے ۔ (۳)’’تاج العروس‘‘ کے مصنف طریقہ اور برتائو کا نام بھی اَلسِّیْرَۃ رکھتے ہیں (تاج العروس ، سیّد محمدّ مرتضیٰ الزّبیدی ج ۳ ص ۲۸۷ وزارۃ الارشاد والا بناء کویت ۱۹۶۵ء)