حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
اس تفصیل کی ضرورت اس لیے ہوئی کہ حضرات انبیاء علیہم السلام کا مزاج اور طریقہ زندگی سمجھا جاسکے، جس سے یہ سمجھنا آسان ہوگا کہ انہوں نے قوم کے سامنے اخلاقیات اور زندگی کے سب رخ پیش کرنے ہوتے ہیں ۔ اس لیے وہ چھوٹے بڑے ہر قسم کے کاروبار کو بغیر کسی عار کے کر لیتے ہیں ۔ حضرت محمدﷺ نے بھی گلہ بانی سے لے کر تجارت تک کام فرمایا۔ آج بھی امت کے لیے آپﷺ کا یہ اسوۂ حسنہ ایک نمونہ ہے۔ آج بادشاہ سے لے کر چرواہے تک ہر جائز و حلال کام کرنے والوں کے لیے محمدﷺ رہبر و راہنما ہیں کہ آپﷺ حاکم بھی رہے اور راعی بھی۔سید دو عالمﷺ کی تجارتیں : جیساکہ لکھا گیا سارے نبی حلال روزی کے سلسلے میں کوشاں رہے ہمارے نبی علیہ السلام نے بھی جوانی میں نبیوں کا یہ عمل مسلسل جاری رکھا، عموماً دورِ شباب میں ہر انسان اپنی روزی کے راستے ہموار کرتا ہے تاکہ مقصد حیات میں طلبِ رزق زیادہ رکاوٹ نہ بن سکے۔ رسولِ رحمتﷺ نے ظہورِ اسلام سے پہلے بکریاں بھی اجرت پر چرائیں یعنی جو کم سے کم مزدوری کا ذریعہ ہو سکتا تھا وہ بھی کر گزرے اور فرمایا: میرے علاوہ دیگر نبیوں نے بھی یہ کام کیا ہے۔ (سبل الہدیٰ: ۵/ ۱۵۶) آپﷺ نے سب سے کم اجرت والا کام بھی کیا اور سب سے اعلیٰ ذریعہ ٔرزق اس وقت تجارت سمجھا جاتا تھا اس کو بھی انجام دیا، اس اسوئہ حسنہ میں نوجوانوں کے لیے ایک بڑا سبق یہ ہے کہ عنفوانِ شباب میں خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کسبِ معاش کے لیے ہر وہ کام کر گزرنا چاہیے جس کا موقعہ میسر آجائے، زندگی کے یہ لمحات بڑے قیمتی ہیں ، کسی انسان پر بوجھ نہ بنیں جلد سے جلد اپنے سرپرستوں کا سہارا بنیں ، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے نکاح سے پہلے رحمت عالمﷺ بھی اپنے چچا کی سرپرستی میں تھے، اس لیے ان کی اعانت کے لیے اولین فرصت میں جو کام ملا وہ کر لیا اور امت کے لیے ایک قابل فخر نمونہ قائم فرما دیا۔پھر آپﷺ خود اپنے چچا کے لیے سہار ا بن گئے۔(تاریخ الطبری: ۲/۳۱۳) تجارت کے سلسلے میں سفر بصریٰ (شام) تو معروف ہی ہے۔ آپﷺ نے مکہ میں بھی یہ شغل جاری رکھا۔ (دلائل ُالنبوّہ: باب ۴۸) ٭اور جب بازارِ عکاظ سے خرید و فروخت فرمائی تواس میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی حضرت محمدﷺ کے ساتھ تھے، اسی میدانِ تجارت میں آپﷺ نے جس معروف، شاعر، ادیب، خطیب وحکیم العرب کا خطبہ بھی سنا تھا، اس کو قُسُّ بن ساعدہ کہا جاتا تھا۔ (عیون الاثر: ۱/ ۸۵)