حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
۲۔ اس کی ایک شق یہ تھی کہ اس معاہدے کا اطلاق قریبی شہروں پر بھی ہو گا، اس وجہ سے جدہ کی بندرگاہ عربی لٹیروں سے محفوظ ہوئی اور راستوں میں امن کی چادر بچھ گئی اور بے خوفی کی وجہ سے لوگوں کو ترقی کی راہیں سوچنے کا موقعہ میسر آیا۔ ۳۔ اس بے آب و گیاہ سرزمین پہ نہ کپڑے بننے کا کام ہوتا اور نہ چمڑے کی دباغت کی ایسی کوئی صنعت تھی جس سے بنیادی ضرورتیں پوری ہوتیں ، صرف تجارت ہی ان کا ذریعہ معاش تھا جس کے ذریعے ان کو دیگر ممالک کی اشیاء سے استفادہ ممکن تھا، اندرون عرب کھیتی باڑی اور کچھ گلہ بانی تھی اور عورتوں کے سوت کاتنے کے کام کا ان کو کوئی خاص فائدہ اس وجہ سے نہ تھا کہ اشہر حرم کے علاوہ پورا سال بیرونی لڑائیوں اور آپس کے جھگڑوں میں گزر جاتا تھا، ان وجوہات کی بنا پر یہاں کے لوگ ضروری کپڑوں ، لباس و بستر وغیرہ سے بھی محروم تھے، ان حالات میں ’’امن کا یہ معاہدہ‘‘ اقتصادی ترقی کا کھلا اعلان تھا، جس سے عوام و خواص کو نفع پہنچا۔ ۴۔ رسول رحمتﷺ نے ایک سرگرم کارکن کے طور پر اس میں حصہ لیا اور بعد از اعلانِ نبوت ہجرت کے بعد جب حضرت محمدﷺ نے مدینہ میں اسلامی ریاست قائم فرمائی تو پڑوسی غیر مسلموں (یہود مدینہ) سے بھی اسی قسم کا معاہدہ فرمایا: جس کے ذریعے معاشرہ آپس کی لڑائیوں سے محفوظ رہے اور لوگ اپنے اپنے مذہب پر بغیر کسی خطرے کے عمل کریں ، راستے محفوظ ہوں ، آمد و رفت، لین دین جاری رہے اور کسی کو بھی اقتصادی تنگی کا سامنا نہ کرنا پڑے، اس قسم کے معاہدات دیگر ہمسایوں کے ساتھ بھی کیے۔ (سیرۃ ابن ہشام: ۱/۵۰۳) خلاصہ کلام: جن بنیادوں پر سیدنا محمدﷺ نے اقوام عالم کو امن کا پیغام دینا تھا ان کی ابتداء حضرت محمدﷺ نے قبل از وحی اپنے دور شباب میں ہی کر دی تھی، اللہ نے توراۃ میں آپﷺ کی پیدائش سے بھی پہلے فرما دیا تھا: محمد اللہ کے رسول ہوں گے، مظلوموں کی مدد کریں گے اور کمزور بننے کو روکیں گے (کہ نہ کوئی انسان ظالم بنے اور نہ مظلوم)۔ (المواہب اللدنیۃ: ۲/۵۴۹)قیام امن اور شہر امن: حضورﷺ سے پہلے ظلم کے خلاف زبیر وابوطالب کے والد اور آنحضورﷺ کے محترم دادا نے سرزمین مکہ میں آوازبلند کی، یہ معاہدہ اسی کی بازگشت کا نتیجہ تھا یہ عبدالمطلب کا خون ہی تھا جو اس ارض مقدس کو دعائے ابراہیمی کاپر تو بنانا چاہتا تھا، حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے تعمیرِ کعبہ کے بعد اللہ سے سوال کیا تھا:رَبِّ اجْعَلْ ہٰذَا بَلَدًا آمِنًا (البقرۃ: ۱۲۶)’’اے میرے پالن ہار! اس شہر (مکہ) کو امن والا شہر بنا دے۔‘‘