حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
آپﷺ کے ساتھی میسرہ رضی اللہ عنہ کو کہا: یہ آپﷺ کے ساتھی معمولی آدمی نہیں ، نبی معلوم ہوتے ہیں ، ہمارے علماء نے آخری نبی کی جو نشانیاں بتائی ہیں وہ ان میں پائی جاتی ہیں ۔ (تاریخ الخمیس: ۱/ ۲۶۳)اچھے شریکِ کار: حضرت عبداللہ بن السائب رضی اللہ عنہ نے آپﷺ کے ساتھ کاروبار کیا تھا، جب اعلانِ نبوت ہوا اور مشرکینِ مکہ نے آپﷺ کے ساتھیوں کو ستانا شروع کیا تو ان دشمنان اسلام کی فتنہ انگیزیوں سے وہ دور رہے، بالآخر حضورﷺ مدینہ ہجرت فرما گئے ۔ مکہ فتح ہوا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ان کو ساتھ لے کر حاضر ہوئے، جملہ مہاجرین ان کو جانتے تھے، اس لیے اللہ کے رسولﷺ کے سامنے ان کی تعریف کرنے لگے : یہ مساکین سے محبت رکھتے ہیں ، ہمسایوں سے اچھا سلوک رکھتے ہیں اور یتیموں کی معاونت کرتے ہیں ۔ حضورﷺ نے فرمایا: میں ان کو تم سے زیادہ جانتا ہوں ، حضرت عبداللہ بن السائب نے حضورﷺ سے مخاطب ہو کر عرض کی: میرے والدین آپﷺ پہ قربان، آپ تو میرے بہت اچھے دوست تھے (اسد الغابہ: ۲/ ۱۶۴) آپﷺان کی طرف متبسم ہوئے اور فرمایا: دیکھو جو اچھے اخلاق قبل از اسلام تمہارے تھے وہ عادات اب بھی رہنی چاہئیں ۔ تم اسی طرح مہمان نواز، یتیم پرور اور اچھے ہمسائے بن کر رہنا۔ (اسد الغابہ: ۲/ ۱۶۵) حضرت عبداللہ بن السّائب اپنے ہم مجلس لوگوں کو بطور فخر بتایا کرتے تھے کہ میں اعلانِ نبوت سے پہلے رسول اللہﷺ کا شریک تجارت تھا۔ جب مدینہ منورہ حاضر ہوا، تو آپ نے فرمایا : اے عبداللہ !تم مجھ کوپہچانتے بھی ہو؟ میں نے عرض کیا :کیوں نہیں ؟ کُنْتَ شَرِیْکی فَنِعْمَ الشَّریْکُ لَا تُدَارِیْ وَلَا تُمَارِیْ۔ ترجمہ:آپ تو میرے شریک تجارت تھے اور کیا ہی اچھے شریک تھے نہ کسی بات کو ٹالتے تھے اور نہ کسی بات میں جھگڑتے تھے۔(اسدالغابہ: ۲/ ۱۶۴، ملاحظہ: حضرت عبداللہ جن کا ابھی ذکر ہوا ن کے نام میں کچھ اختلاف بھی ہے)لین دین میں جھگڑا نہ کرنے والے: تجارت میں ایک اور ساتھی حضرت قیس بن سائب مخزومی تھے وہ فرماتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں رسول اللہﷺ میرے شریکِ تجارت تھے۔ (ان کی شان تجارت میں یہ تھی۔) وَکَانَ خَیْرَ شَریْک لَا یُمَارِی وَلَا یُشَارِیْ۔