حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا عہد شباب |
|
ایک روایت ہے کہ انہوں نے عرض کی:اے محمدﷺ!میرا یہ خیال یقین کامل تک پہنچ چکا ہے کہ آپﷺ ہی اللہ کے آخری نبی ہیں ، اس لیے اب (آپﷺ کے اعلان نبوت سے پہلے ہی) میں آپ پر ایمان لاتا ہوں ، جب میں آپ کی بعثت کا سنوں گا تو آپ کے پاس حاضر ہوں گا۔ اس اقرار ایمان کے بعدحضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ بہت دنوں تک اللہ کے رسولﷺ کے حضور میں نہیں آ سکے، یہاں تک کہ فتحِ مکہ کے دن یہ آپﷺ کے پاس آئے، جب نبی کریمﷺ نے ان کو دیکھا تو فرمایا: ’’مَرْحَبًا بِالمُہَاجِرِ الاَوَّل‘‘ (خوش آمدید اے پہلے مہاجر) لسانِ رسالتﷺ سے نکلا ہوا ان کا یہ لقب ان کو بے شمار صحابہ کرام میں ممتاز کر گیا۔ (الاصابۃ، خزیمہ رضی اللہ عنہ بن ثابت) اور وہ تمام صحابہ کرام کے درمیان اس لیے بنظر خاص دیکھے جاتے کہ وہ حضورﷺ کے پرانے ملنے والے تھے اور قبل از اعلانِ نبوت انہوں نے حضورﷺ کو بطور نبی اس لیے تسلیم کر لیا تھا کہ آپﷺ ان کو ایک سچے اور کھرے انسان، صفات انبیاء کے حامل اور حسن معاملہ میں عام انسانوں سے فائق نظر آئے۔ حضرت نواس رضی اللہ عنہ بھی آپﷺ کے کاروباری دوست تھے ان کو آپﷺ نے مال دے کر یمن بھیجا( معرفۃ الصحابہؓ ۵/۲۷۰۵) حضرت محمدﷺ بن عبداللہ سیحرم اور جوارِ حرم کے لوگ ملتے، آپﷺ کی مجالس میں بیٹھتے، نظریات سے متفق ہوتے اور آپﷺ سے قلبی محبت رکھتے تھے وہ پورے حجاز میں اچھی نظر سے دیکھے جاتے تھے، اس لیے کہ اللہ نے سیّدی محمدﷺ کی صحبت با برکت میں وہ تاثیر رکھی تھی جو ایک نبی کی شخصیت میں ہونی چاہیے۔ سیّدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ ، حضرت حکیم رضی اللہ عنہ بن حزام اور جو اس باب میں جن کے نام لکھے ہیں ، ان سب کے خیالات، حالات، اعمال، پرہیز، خوفِ خدا، شراب سے دوری، زنا ء سے نفرت جیسی حسنات میں ہمارے نبی ﷺ کی صحبتِ نیک اختر کا کرشمہ صاف دیکھا جا سکتا تھا۔حضرت قس رضی اللہ عنہ بن ساعدہ بن حذافہ: آپﷺ کے کتنے ہی پہچاننے والے دنیا سے یہ حسرت لے کر چلے گئے کہ حضرت محمدﷺ ہی آخری نبی ہیں ان کے اعلان نبوت کے بعد وہ آپﷺ کے ساتھ ہوں گے۔ ان میں سے ایک حضرت قس رضی اللہ عنہ بن ساعدہ بن حذافہ تین سو سالہ بزرگ تھے حضورﷺ کو ان سے اس وجہ سے انس تھا کہ وہ بھلی باتیں کرتے تھے، دین ابراہیمی کے پیرو کار دانشمند اور خطیبُ العرب تھے، آپﷺ کی بعثت سے پہلے رخصت ہو گئے اور اپنی زندگی میں لوگوں میں ایسی باتیں عام